نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارلی میچورٹی اور نوجوان نسل کے مسائل|| نادر بلوچ

زینب قتل کیس ہو، نور مقدم کا معاملہ، اسلام آباد میں لڑکے لڑکی پر تشدد جیسے مسائل، ان سب کے پیچھے مذکورہ عوامل کافرما ہیں، ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں نکاح مشکل اور زنا آسان ہو گیا ہے

نادر بلوچ

Twitter:@BalochNadir5

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا نے جوں جوں ترقی کی ہے ویسے ہی سہولیات کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھے ہیں، ایک زمانہ تھا جب نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی میچور ہونے میں وقت لگتا تھا، انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، معلومات کا فقدان اس زمانے میں ایک لحاظ سے کسی نعمت سے کم نہیں تھا، زیادہ تر نوجوان پڑھائی اور پریکٹکل گیمز میں زیادہ حصہ لیتے تھے، یوں ان کی ذہنی اور جسمانی ترقی برابر ہوتی تھی۔
 سیکس کیا ہے؟، میاں بیوی کا ریلیشن کیا ہوتا ہے؟، نوجوانوں کو بہت بعد میں پتہ چلتا تھا، لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلق آسانی قائم نہیں ہوتا تھا، اسی لیے جنسی تعلق کے
حوالے سے زہنی و جسمانی میچورٹی لیول قائم ہونے میں وقت لگتا تھا، پھر انٹرنیٹ کی ترقی، فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام، ٹوئٹر جیسی ایپس، ان رائیڈ موبانل کی بھرمار اور انٹرنیٹ کی ہرفرد تک آسانی سے دستیابی نے جہاں معلومات تک رسائی میں ترقی دی ہے، وہیں نوجوانوں میں ذہنی و جسمانی میچورٹی قبل از وقت شرع ہو چکی ہے اور یوں ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ مختلف نیٹ ورکس کی جانب سے کال پیکیچز کی بھرمار اور پھر واٹس ایپ پر فری کالز نے تباہی مچا دی ہے، فیس بک پر فرینڈ ریکسویسٹ بھیجنے سے لیکر مسیجنگ کے تبادلے تک گھنٹوں نہیں منٹس لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد کے ایک نوجوان نے رابطہ کیا اور اپنی مشکل کچھ یوں بتائی کہ اس کے پانچ بھائی ہیں اور وہ چوتھے نمبر پر ہے، ابھی بڑے بھائی کی شادی ہونا باقی ہے جب کہ میں شادی کی عمر میں داخل ہو چکا ہوں، فیس بک، یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ کر پاگل ہو جاتا ہوں، رات بھر نیند نہیں آتی، دیوار سے ٹکریں مارنے کو دل کرتا ہے، نوبت "ہاتھ سے”زندگی برباد کرنے تک پہنچ چکی ہے، اگر ایسا نہ کروں تو دن نہیں گزرتا، میں ایک بڑی مشکل سے دوچار ہوں، خدارا میری رہنمائی کریں میں کیا کروں؟۔
اس نوجوان نے بے باکی کے ساتھ اپنی مشکل بتا کر مجھے ہلاکر رکھ دیا، سچ بات یہ ہے کہ اس دور میں ہر نوجوان موبائل فون استعمال کرتا ہے، رات کو بستر پر موبائل ساتھ ہوتا ہے، انٹرنیٹ کی فراوانی نے سب کچھ آسان کردیا ہے، اوپر سے انڈین ویب سیریز نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، آئے روز سکس کے نئے طریقے، لڑکی لڑکے میں جسمانی تعلق کیسے قائم ہوتا ہے؟، ایسی وہیات سیریز کے موضوعات ہیں جو نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے، آن لائن پیسے کمانے کے چکر میں تمام حدیں پار کردی گئی ہیں، کچھ خواتین بھی اخلاق باختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے یوٹیوب چینلز پر عجیب و غریب قسم کے موضوعات چھیڑ کر صرف پیسے کمانے کے چکر میں اخلاقی دیوالیہ پن کا خوب مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جبکہ کم عمری میں بچوں کا موبائل فون استعمال کرنا، والدین کا بچوں کو گیمز کے نام پر بچوں کو موبائل فون دینا اور پھر کسی چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا بھی مشکلات کو بڑھا رہا ہے۔
دوسری جانب والدین اپنے بچوں کی بروقت شادیاں کرنے کے بھی مخالف ہیں، ہر والد کی خواہش ہے کہ اس کی بیٹی یا بیٹا پہلے تعلیم مکمل کرے، اپنے پاوں پر کھڑا ہو، بزنس یا جاب حاصل کرے اور پھر اچھا اسٹیس حاصل کرنے کے بعد شادی کرے اور یہ ایک رواج بن جکا ہے۔ جبکہ مذہبی طبقہ انٹرنیٹ اور جدید مسائل کا حل پیش کرنے کے بجائے اس پریشر کو فتوے سے روکنے پر مُصر ہے، حتیٰ علما کرام اور دینی شخصیات ان مسائل بارے سوچنے تک گوارا نہیں کرتے، جبکہ دوسری جانب نوجوان نسل مشکلات کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے، جنسی میلاپ اور تسکین حاصل کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ سکس کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے، اللہ نے ہر انسان میں جنسی تسکین کی پیاس رکھی ہے، جسے بجھانے کیلئے اگر جائز طریقہ مسدود کیے جائیں گے تو یقیناً نئی نسل اس پیاس کو بجھانے کیلئے ناجائز طریقوں کو اختیار کرے گی، جو اب ایسا ہو رہا ہے۔
زینب قتل کیس ہو، نور مقدم کا معاملہ، اسلام آباد میں لڑکے لڑکی پر تشدد جیسے مسائل، ان سب کے پیچھے مذکورہ عوامل کافرما ہیں، ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں نکاح مشکل اور زنا آسان ہو گیا ہے، کئی علاقوں میں حق مہر کی مد میں بیس سے تیس لاکھ روپے دینا ایک اسٹیٹس سمبل بنا دیا گیا ہے اور اب تو باقاعدہ ڈیمانڈ کی جاتی ہے، اب اگر ایک نوجوان جو زندگی کی شروعات کرنا چاہتا ہے، جس نے ابھی اپنا مستقبل بنانا ہے اسے شروع میں ہی جکڑ کر رکھ دیں گے تو وہ شادی کس عمر میں جاکر کرے گا؟۔ کئی ایسے احباب کو جانتا ہوں جنہوں نے پنتیس برس کی عمر میں جاکر شادی کی۔ جبکہ اس جدید دور میں نوجوان چودہ سے پندرہ سال میں ارلی میچور ہو جاتا ہے، ایسے میں اس کی مشکلات کا حل تلاش کرنا اور شادی کے بندھن کو آسان بنانے کیلئے والدین اور مذہبی طبقات کو کردار ادا کرنا ہوگا، صرف فحاشی عریانی کا راگ الاپنے سے اس سیلاب کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نادر عباس اسلام آباد میں ہم نیوز سے وابستہ ہیں ،نادر عباس کو ٹوئٹر پر فالوکرنے کےلئے یہاں کلک کریں 

About The Author