شمائلہ حسین
کیا آپ نے چھ سال سردی گرمی میں ایک ہی سینڈل میں گزارے ہیں جو آپ کے پاؤں سے بڑے بھی ہوں لیکن آپ انہیں اس خوف سے ٹوٹنے نہ دیں کہ ایسا نہ ہو امی ابو نئے جوتے کی ڈیمانڈ پر سکول سے ہٹوا لیں؟
سنیں، پورا قصہ سنیں ۔۔۔
پی ایچ ڈی تو کوئی بڑی بات نہیں بہت سے لوگ کرتے ہیں ابھی بھی کر رہے ہیں۔۔۔
تو میں اپنی پی ایچ ڈی کا جشن اس قدر کیوں منا رہی ہوں؟
یہ وہ سوال ہے جو مجھے میرے ہی آس پاس کے لوگوں کے کی نگاہوں میں دکھائی دیا، بہت سی مسکراہٹیں بھی مجھے دان کی گئیں۔
یہاں میرے آس پاس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حال ہی میں مجھ سے کسی بھی ذریعے سے ربط میں آئے ہیں۔
زیادہ حیران کن تھا میری پرانی سہیلیوں کا مجھے داد و تحسین کے ٹوکروں سے نوازنا۔
تو عزیزان من !
بات یہ ہے کہ جو میرے اس سفر کے گواہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ کیسے کیسے حالات میں کس طرح شمائلہ نامی اس عورت نے ہمت نہیں ہاری۔
بات صرف اس پی ایچ ڈی ڈگری کی نہیں ہے ۔۔۔ قصہ شروع ہوتا ہے 1994 میں اپنے پیدائش کے قصبے سے نقل مکانی کر کے میاں چنوں آجانے کا۔
پانچ بہنوں ایک بھائی اور اماں ابا کے ساتھ یہ ہجرت پانچویں جماعت کی بچی کو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
بس اتنا سمجھ میں آیا کہ کہاں توعلاقے کے سب لوگ ابو کو جانتے تھے اور ان کی اتنی عزت کرتے تھے کہ الیکشن کمپین کے لیے آنے والے سیاستدان سیدھا ابو جی کے پاس آتے کہ الطاف حسین صاحب آپ کہیں گے تو کوئی ووٹ سے انکار نہیں کرے گا۔
علاقے کی ٹیلی فون ایکسچینج ، مسجد کے امام ، ڈسپنسری کے ڈاکٹر ، واپڈا کے لائن مین سب کے سب میرے ابو کے دوست ہوتے تھے۔
اور ہم الطاف صاحب کے بچے اپنے علاقے کے سکولوں میں نمایاں حیثیت میں بڑے مان کے ساتھ پڑھنے جاتے تھے۔
سرکاری سکول اور ان میں ہر کلاس میں تھوڑی تھوڑی تعداد کے باعث ٹیچرز کی خاص توجہ ہر بچے کو ملتی اور ان میں بھی اچھے نتائج کے باعث ہم مزید نمایاں رہتے۔
اب ہوا یوں کہ الطاف صاحب یعنی میرے ابو جی کو اپنے بھائیوں سے محبت نے مجبور کیا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر نسبتاً بڑے شہر میں شفٹ ہوں جہاں ان کے بہن بھائی ، رشتے دار اور ہمارے دادا ابو بھی موجود تھے۔
شوق شوق میں کی ہجرت نے سب سے پہلے تو انہیں معاشی زوال کا منہ دکھایا، بھائیوں کے ہی قرض تلے دبتے چلے گئے۔ گھر بار بیچ کر جو پلاٹ وغیرہ خریدا وہ بیٹے کو کاروبار سیٹ کر کے دینے کے چکر میں ختم ہوگیا اور پے درپے نقصانات نے گھر کا سکون بھی تباہ کردیا۔
ایسے میں بچوں کی ذہنی حالت کیا ہوسکتی ہے۔ بھائی اپنی تعلیم پوری نہیں کرسکا طلبا کی ایک تنظیم کے چکر میں پڑ کر کالج سے بے دخل کردیا گیا۔
سب سے بڑی بہن کی شادی کر دی گئی۔ اس سے چھوٹی بہن ذہنی طور پر اتنا ڈسٹرب ہوئی کہ رو رو کر میٹرک تک گئی۔
اس کے بعد باری آئی میری میں جو شروع سے کتابی کیڑا تھی میں نے پہلی اور آخری پناہ کتابوں اور سکول کے کاموں میں ڈھونڈ لی۔
پینتالیس منٹ کی واک پر سکول جانا آنا چپ کر کے قبول کر لیا کہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
بڑی بہن کی پرانی یونیفارم ملتی ، پرانی کتابیں ملتیں چپ کر کے رکھتی اور پڑھتی رہتی کہ یہ بھی نہ کروں گی تو میرے بس میں اور کیا ہے۔
کیا آپ نے چھ سال سردی گرمی میں ایک ہی سینڈل میں گزارے ہیں جو آپ کے پاؤں سے بڑے بھی ہوں لیکن آپ انہیں اس خوف سے ٹوٹنے نہ دیں کہ ایسا نہ ہو امی ابو نئے جوتے کی ڈیمانڈ پر سکول سے ہٹوا لیں؟
کسی کی اترن ملتی تو خاموشی سے بغیر ضد کیے پہن لیتی۔ سائز میں بڑے کپڑے، بڑے جوتے ، پرانی کتابیں سب قبول تھا بس سکول سے ہٹنا کسی صورت میں افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔
تو صاحبو میٹرک تک کولہو کا بیل بن کر چلتی رہی۔
بیمار رہتی تھی کہ حساس طبیعت کے باعث ڈیڑھ ڈیڑھ سو کی تعداد والی جماعتوں میں چھوٹی چھوٹی بات کو بھی محسوس کرتی۔
کلاس کی ان لڑکیوں پر رشک آتا جو ٹیوشن اکیڈمیز میں پڑھتی تھیں، اجلے یونیفارمز میں ملبوس ہوتی تھیں، کینٹین پر جا کر بے طرح خرچ کرتی تھیں اور سب سے زیادہ رشک کا باعث ان کی نئی کتابیں ہوا کرتی تھیں۔
بہر حال میٹرک میں پہنچ کر میں نے سائنس مضامین کے ساتھ پڑھنے کا آپشن لیا تو خاندان بھر میں ہر کسی نے کہا ٹیوشن کون پڑھائے گا؟ سائنس میں پاس ہونا تو ایکسٹرا کوچنگ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لڑکی ذات ہے اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے بس دس پاس کروا کر بیاہ کردو اس کا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
لیکن میں نے اپنی ازلی چپ کا سکھ اٹھایا اور سر جھکا کے پڑھتی رہی۔ یہاں سے میری خوش قسمتی کا آغاز ہوا اور مجھے مسز نور فاطمہ جیسی شاندار خاتون بطور کلاس انچارج نصیب ہوئیں۔
مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ استاد کا احترام کن بنیادوں پر لازم ٹھہرتا ہے۔
ہم ان کی کلاس کی سٹوڈنٹس تو تھیں لیکن وہ ہمیں اس قدر اپنا سمجھتی تھیں کہ پورے سکول میں کسی اور ٹیچر کی جرات نہیں ہوتی تھی ہماری کلاس کی کسی بچی کو بلاوجہ ڈانٹ سکیں۔
مسز نور فاطمہ نے ہماری ایسی تربیت شروع کی جو میں کسی بھی سکول ٹیچر کے ہاں نہیں دیکھتی۔
روز اسمبلی کے بعد ہمیں سکول کے گراؤنڈ میں جاگنگ کرنی ہوتی تھی اور جیسے ہی کلاس میں پہنچتے ہمیں کرسیوں کی پشت سے کمر لگانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
فوراً کلاس ورک کی کاپیاں نکالتے اور ایک دن قبل دیا گیا کام لکھ کر دکھاتے۔
ہوتے ہوتے ہم ایسے تربیت یافتہ ہوئے کہ سرپرائز ٹیسٹ میں بھی گھبراہٹ نہ ہوتی اور کچھ نا کچھ ضرور لکھ کے پیش کر دیتے۔ یہاں سے انہیں میرے بارے میں اندازہ ہوا کہ شدید پیلی یونیفارم اپنے سائز سے بڑی سویٹر اور ایک انچ بڑے سینڈل میں رہنے والی لڑکی پڑھنے کا شوق رکھتی ہے۔
انہوں نے کبھی نہیں پوچھا کہ میرے حالات کیا ہیں لیکن کلاس کی امیر اور ٹیوشن اکیڈمیز میں پڑھنے والی سٹوڈنٹس کے مقابلے میں نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ مجھے زیادہ اہمیت دیتیں۔
امتحان کے قریب جا کر جب سب سٹوڈنٹس کو فری کردیا گیا تو میں اور میرے جیسی ایک اور طالبہ نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں سکول مستقل آنے دیا جائے تاکہ ہم آپ کو اور دیگر ٹیچرز کو ٹیسٹ دے سکیں کیونکہ ہم اکیڈمیز کی ٹیوشن فیس ادا نہیں کرسکتے۔
مسز نور فاطمہ نے ہم پر یہ احسان کیا ہماری درخواست قبول کی اور جب امتحان ہوئے تو نتیجہ حیران کن تھا میں اے گریڈ میں پاس ہوئی تھی۔
مسز نور فاطمہ نے میرا ماتھا چوم کر مجھے رزلٹ کارڈ تھمایا اور کہا تم سے مجھے بہت امید ہے محنت کرتی رہنا۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر