سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی آزاد کشمیر میں جیت کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ گلگت بلتستان ہو یا آزاد کشمیر، دونوں جگہ کے ووٹرز وفاق میں برسر اقتدار جماعت ہی کو جتوانے کی روایت کے حامل ہیں۔ ووٹرز جائز طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ فنڈز اور طاقت و اختیار کا سرچشمہ وفاقی حکومت ہے۔ اس لئے وفاق میں برسراقتدار جماعت کو ووٹ دے کر وہ اپنے فنڈز اور زیادہ سے زیادہ حقوق کے حصول کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے دور افتادہ علاقے نہیں رہے۔ ذرائع مواصلات میں جدت اور موبائل و کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی وجہ سے سیاست اور اطلاعات کے حوالے سے یہ علاقے کسی طور پر بھی پاکستان سے پیچھے نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ اِس بار آزاد کشمیر کی انتخابی مہم پاکستان سے مختلف نہیں تھی، وہی رنگ ڈھنگ، وہی گالم گلوچ اور وہی نعرے۔
گویا امریکہ میں ہائی ویز نے ریاستوں کو متحد کر نے کا کام کیا تو آزاد کشمیر کے انتخابات میں وہ کام ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی نے کیا ہے۔ اب گلگت ہو یا آزاد کشمیر، وہاں کا باشندہ بھی وہ اطلاعات رکھتا ہے جو لاہور یا کراچی کا رہائشی رکھتا ہے۔
آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت کو صرف وفاقی حکومت کے مرہونِ منت قرار دینا بھی درست نہیں۔ اِس حوالے سے دوسرے عناصر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے آزاد کشمیر میں زور دار مہم چلائی اور بڑے بڑے مجمعوں سے خطاب کیا۔
بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے۔ اگر تو جلسے جلوسوں کا رنگ ڈھنگ دیکھا جائے تو پھر ن لیگ کو بہت کم سیٹیں ملی ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مریم نواز کراؤڈ پُلر ہیں، لوگ اُن کے جارحانہ خطابات کو سننے کے لئے آتے ہیں جبکہ حکومتی جلسوں میں کوئی ایسا مقرر نہیں تھا جس کی اسٹار ویلیو ایسی ہو۔
آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی جیت ن لیگ کے لئے جھٹکا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے پی ٹی آئی اپنی معاشی کارکردگی میں بہتری کا جو ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، اس کا عوامی ذہنوں پر اثر پڑا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے پی ڈی ایم کا جو حشر کیا اور جس طرح سے اپوزیشن کی پارٹیوں نے آپس میں تماشا لگایا اس کے لازمی اثرات بھی انتخابات پر پڑے ہیں۔
ووٹروں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، کچھ تو پکے ووٹر ہوتے ہیں، آندھی ہو یا طوفان ہو وہ اپنی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد مطلب پرست اور جہاندیدہ ووٹروں کی بھی ہوتی ہے جو یہ اندازہ لگاتی ہے کہ اس پارٹی کو طاقت کے دربار میں رسوخ حاصل نہیں، اس لئے اس کے برسر اقتدار آنے کا بھی امکان نہیں۔ ایسے ووٹر اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جس کا سرکار دربار میں رسوخ ہو، جس کے برسر اقتدار آنے کا امکان ہو۔ ایسے ووٹر پنجاب میں بھی ہیں اور آزاد کشمیر میں بھی۔ ان ووٹرز نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلی حکومت پی ٹی آئی کی بنے گی اس لئے پچھلی بار ن لیگ کو اکثریت سے جتوانے والوں نے اس بار پی ٹی آئی کو اکثریت سے جتوا دیا۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے ن لیگ کے لئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ن لیگ کے حامیوں کے لئے دو بیانیوں کی کشتیوں میں سواری ایک مشکل مرحلہ ہے۔ ایک طرف شہباز شریف کا مفاہمانہ رویہ ہے تو دوسری طرف مریم نواز کا جارحانہ رویہ۔
ن لیگ نے اپنی حکمتِ عملی یہ بنا رکھی ہے کہ پارٹی سیاست اور عوامی جذبات کے لئے مریم نواز کو لیڈ دی جائے جبکہ پارلیمانی سیاست اور اتحادی سیاست کے لئے شہباز شریف کو آگے رکھا جائے۔ بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ مسلسل جیتتی رہی لیکن آزاد کشمیر میں یہ حکمت عملی کام نہیں آئی اور کامیاب جلسوں کے باوجود ن لیگ زیادہ سیٹیں نہ لے سکی بلکہ پیپلز پارٹی بآسانی ان سے کہیں زیادہ سیٹیں لے گئی۔
پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں اپنی فتح پر جشن منانے کا حق حاصل ہے مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کے اگلے انتخابات سے ایک سال پہلے حکومت کمزور ہوگی اور اپوزیشن مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔
جب حکومت مخالف ہوا چلے گی تو پھر معاشی کارکردگی اور دوسرے معاملات کا ایسا پوسٹ مارٹم ہوگا کہ حکومت کے لئے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ حکومت کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اسے مقتدرہ کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی جبکہ ماضی میں مقتدرہ اور حکومت میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا اگلے انتخابات اور پھر اس کے بعد بھی یہی انتظام چلے گا یا پھر اس میں تبدیلی آ جائے گی؟ آزاد کشمیر میں تین بڑی جماعتوں کو ووٹ پڑے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی۔
آئندہ الیکشن میں پنجاب میں پیپلز پارٹی ان دونوں جماعتوں کے مقابلے میں کہیں نظر نہیں آتی۔ کشمیر میں پیپلز پارٹی کی اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی وجہ وہاں کے بڑے انتخابی گھوڑے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی وفاداری نہیں بدلی اور حلقوں میں بھی اپنا اثر برقرار رکھا ہے۔ سنٹرل پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں اسی لئے پنجاب میں اگلا انتخاب دو پارٹی نظام کے تحت ہو گا جس میں ن لیگ اور تحریک انصاف کا مقابلہ ہو گا۔ وقت کے ساتھ چھوٹی پارٹیاں اور آزاد امیدواروں کے ووٹرز تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایک طرح سے ٹو پارٹی سسٹم کی وجہ سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہوا ہے اور ہر جگہ پر اس کا 2018کے الیکشن کی نسبت ووٹ بینک بڑھ گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف جب حکومت کے حصار سے باہر آئے گی تو اسے پتہ چلے گا کہ اس نے پارٹی کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے۔ عرصہ سے عمران خان نے نہ پارٹی کا اجلاس بلایا ہے نہ کبھی تنظیم کے لئے وقت نکالا ہے۔ الیکشن کے لئے پارٹی کی مشینری متحرک نہ ہو تو انتخابی امیدواروں کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
ویسے تو عام طور پر ہر حکمران پارٹی کی یہی روایت رہی ہے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی حکمرانی میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنی ہی پارٹی تنظیم کو بھلا دیتے ہیں اور اسے مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔ یہی کام تحریک انصاف کر رہی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے بہت سے ورکرز کو سرکاری محکموں میں اکاموڈیٹ کر دیا ہے مگر بیشتر ورکرز اب بھی شنوائی نہ ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے تحریک انصاف کے لئے مثبت اشارے آئے ہیں۔ ن لیگ کے لئے آنے والے اشارے تشویشناک ہیں، اسے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ دو بیانیوں والی روش آئندہ انتخابات میں کارگر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ن لیگ کےپالیسی سازوں کو پاکستان کے آئندہ انتخابات کے لئے ایسی حکمت عملی بنانی چاہئے جس سے یہ تاثر ملے کہ اگلا اقتدار انہیں ملے گا۔ یہ تاثر ہوگا تو 97یا 2013کی طرح کے نتائج آ سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر