سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو فون کرکے لڑکے اور لڑکی پر تشدد کرنے والے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے پولیس کو اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس واقعے کی رپورٹ وزیراعظم ہائوس کو بھجوانے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ دوسری طرف ملزم مرزا عثمان نے گرفتاری سے پہلے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ صرف 15سے 20دن ہی جیل میں رہوں گا، ہم پر کچھ کمزور انسانوں نے مقدمہ کروایا ہے جو ہم سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم کی جانب سے لڑکے اور لڑکی پر تشدد کرنے والے کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت پر خوشی اس وقت عنقا ہوگئی جب مرزا عثمان نے گرفتاری سے پہلے تمام اداروں اور ملک کے قانون کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کرتے ہوئے صرف 15سے 20دن بعد جیل سے رہا ہوجانے کا ویڈیو پیغام جاری کیا۔ مرزا عثمان کے ویڈیو پیغام کے بعد ہر ذی شعور میں غم و غصے کی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں جو درحقیقت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام کی کمزوری ہے جو ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں۔یقیناً ایسے لوگوں کی ان قبیح حرکتوں کے پیچھے ان کی اپنی گھٹیاں تربیت کا اثر تو ہے ہی مگر مرزا عثمان کے ویڈیو پیغام نے ثابت کیا ہے کہ اس شخص کو نہ اپنے فعل پر ندامت ہے اور نہ ہی اسے کسی سزا کا خوف کیونکہ ہمارے معاشرے میں کچھ عرصے سے ایسے ہی رویے پروان چڑھ گئے ہیں جن میں لوگوں کو قانون کے تابع یا جرمانے لیتے ہیں لیکن سزا کا کوئی خوف جیسے یکسر ہی ختم ہو گیا ہے جس کے ذمہ دار دراصل اس ملک کی اشرافیہ ہی ہے جن کے نزدیک قانون نام کی گڑیا ہے اور اسے وہ اپنے پیسے کے بل پر جب اور جہاں چاہیں موڑ لیتے ہیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ ماضی میں مجرم ناکافی شواہد کی بنا پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اسی لئے تو مجرموں میں سزا کا خوف ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگر قانون کا زور کسی پر چلتا ہے تو وہ صرف اور صرف غریب ہی ہے جسے بجلی چوری یا سائیکل چور کو تو کئی کئی برسوں کے بعد ضمانت ملتی ہے لیکن بااثر اور امیروں کے لئے قانون کو ضرورت کے مطابق موڑ لیا جاتا ہے۔ مرزا عثمان کا چند دنوں کے بعد جیل سے چھوٹ جانے کا اعلان درحقیقت اس امر کی نشاندہی کرتا ہے جو ہمارے کرپٹ سسٹم نے اسے دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے جس طرح ’’کمزور لوگ‘‘ کہہ کر متاثرین کا مذاق اڑایا ہے وہ اس سوچ کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے کہ ہماےر ہاں غریبوں کو اشرافیہ اور بااثر طبقے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں اسی لئے تو یہ شیطان صفت شخص ہماری اخلاقی گراوٹ اور دیوالیہ پن کی بھرپور عکاسی کرتاہے۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات جس تیزی کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں وہ ایک ابنارمل معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ خواتین کو مردوں کے اس معاشرے میں صرف ایک جنس، شے ہی سمجھا جارہا ہے اور درندے خواتین کو دیکھ کر چیل کوئوں کی طرح جھپٹ پڑتے ہیں افسوس در افسوس کہ خواتین کی عصمت کو تار تار کرنے میں کوئی گناہ یا جرم سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں جس کا مظاہرہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں کیا گیا جب ایک راہ چلتی لڑکی کو بدقماش نے چھیڑنے کی کوشش کی تو نہتی لڑکی نے مزاحمت کی جسے اس شخص نے اپنی ان کا مسئلہ سمجھتے ہوئے واپسی پر لڑکی کو اتنی زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ زمین پر گرگئی۔
خواتین کے ساتھ ظلم و تشدد اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک بیمار معاشرے اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرے کس سمت جارہا ہے جہاں نہ تو رشتوں کا احترام باقی رہا ہے اور ہی خواتین کے لئے کوئی عزت و احترام۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کی بنا پر ہمارے ہاں خواتین اب خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے بطور معاشرہ ہم کیا سبق سیکھ رہے ہیں بلاشبہ ان افسوسناک واقعات کے بعد ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے اور ہم اپنی بیٹیوں کو گھروں سے باہر بھیجنے پر بھی خوفزدہ ہیں جو اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خواتین کو خود کو چاردیواری میں ہی مقید کرنا پڑے گا۔ پاکستانی معاشرہ جس مادرپدر آزادی کی طرف گامزن ہے اگر اس کو بچانے کے لئے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی تو ایک ایک شہر میں روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی ایسے المیے جنم لینے کا احتمال باقی رہے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل خواتین کے لباس کے حوالے سے ایک بات کی تو نام نہاد لبرل مافیا نے بنا سوچے سمجھے آسمان سر پر اٹھالیا اور کسی نے خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات بارے سنجیدہ طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ آخر یہ جذباتی ابال ہمارے معاشرے میں اچانک اس قدر کیوں بڑھ گیا ہے کہ اب بیٹیاں باہر تو کیا گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
معاشرہ سب مل کر بناتے ہیں اور ہمارا معاشرہ آج جس شکست و ریخت کا شکار ہے اس کی بحالی کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے لئے ماہرین نفسیات کے ساتھ تعلیمی ماہرین، ڈاکٹرز، حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، پولیس، علمائے کرام سب سے فی الفور مشاورت کرنی چاہیے کیونکہ اگر اس وقت اس بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ کے گرد بند نہ باندھا گیا تو جانوروں کے اس معاشرے میں خواتین کا رہنا محال ہوجائے گا۔ یہ درست ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کی بنا پر پورے معاشرے کو مطعون نہیں کیا جانا چاہیے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجودخاندانی نظام کی توڑپھوڑ اور فرسٹریشن ایسی شرناک واقعات کی وجہ بن رہی ہے اس لئے حکومت کو مرزا عثمان کے ایشو کو ایک ٹیسٹ کیس سمجھ کر معاشرے کے تانے بانے کو درست کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر اس واقعہ کو بھی حسب روایت معمول کی کارروائی سمجھا گیا تو ان درندوں سے وطن عزیز کی کوئی بیٹی بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ضروری ہے کہ حکومت اس قسم کے معاملات سے روگردانی کرنے کی بجائے اسے ایک بیماری نہیں بلکہ ناسور سمجھے اور اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے تمام فریقین کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کیا جائے کیونکہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہونگے اس وقت تک اس قسم کے معاملات سے نمٹا نہیں جاسکتا۔ ضروری ہے کہ پاکستانی معاشرہ سوچ، رویوں اور تربیت کے پہلوئوں کا ازسرنو جائزہ لے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آخر ایسی کون سی خرابی ہے جس کی بنا پر انسان بھیڑیوں کا روپ دھارتا جارہا ہے۔ ماہرین نفسیات اور تعلیم کی مشاورت سے ایک ایسا نصاب تربیت دینے کی ضرورت ہے جس میں جذبات پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ خواتین کی عزت و احترام کے رویوں اور سوچ کو بھی پروان چڑھایا جائے۔ ادھر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ابھی اس قسم کے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ آج بھی کئی والدین اپنی بدنامی کے ڈر سے اس قسم کے واقعات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے کرنے والے ادارے اس کیس کو ملزمان کے لئے نشان عبرت بنادیں اور اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ سزا کا مطلب ملزم کے دل میں گناہ کا خوف پیدا کرنا ہے جو آج ملزموں اور مجرموں کے دماغوں سے بالکل ہی ختم ہوچکا ہے جس کے ذمہ دار ہمارا عدالتی نظام اور پولیس کی ناقص تفتیش ہے جو بااثر مجرموں کی پشت پناہی کو اپنا فرض اولین سمجھتی ہے اسی لئے تو ایسے کیسز میں اول تو سزا ہوتی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو قانونی موشگافیاں انہیں بچالیتی ہیں اور پھر ان درندوں کی دیکھا دیکھی دوسروں کو بھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ وقت آگیاہے کہ اب ان شرمناک واقعات کو انفرادی طور پر دیکھنے کی بجائے اجتماعی بلکہ بحیثیت معاشرہ دیکھا جائے اور ایک سخت ترین بیانیہ اس قسم کے قبیح جرائم سے نمٹنے کے لئے اپنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ والدین اپنے بچوں کی تربیت پر بھی توجہ دیں اور ان کی حرکات و سکنات کو مانیٹر کریں اور اسلامی تعلیمات کی پابندی کو اپنی اولین ذمہ داری گردانیں تبھی جاکر ان ہوس کے پجاریوں کی بیمار سوچ کو ختم کیا جاسکے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر