ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اڑی اڑی رنگت اور پریشان تاثرات کے ساتھ وہ خاتون کلینک میں داخل ہوئیں۔ پیچھے پیچھے ایک گھبرائی ہوئی بچی، عمر یہی کوئی آٹھ نو برس!
دھم سے کرسی پہ بیٹھتے ہی بولیں،
”ڈاکٹر پلیز میری بیٹی کو چیک کر لیجیے“
دیکھیے، اگر آپ بچی کی ہائمن چیک کروانا چاہتی ہیں تو وہ ہم نہیں کریں گے۔ بچیوں کی ہائمن اور اس کی جانچ پڑتال ہمارے لئے ایک حساس مسئلہ ہے اس لئے ہم پہلے ہی معذرت کر لیتے ہیں۔
”نہیں نہیں ڈاکٹر، مسئلہ کچھ اور ہے“
”بتائیے؟“
”یہ میری بیٹی، جس کی ابھی آٹھویں سالگرہ نہیں منائی گئی، وہ آ گئی ہے ابھی سے“
”وہ کیا؟“
”وہ۔ وہ۔ وہ جی ماہواری۔ میری تو راتوں کی نیند اڑ گئی ہے، دیکھیے اتنی چھوٹی بچی اور ماہواری؟
ڈاکٹر یہ تو نارمل بات نہیں، اب یہ کیسے سنبھالے گی؟ ابھی تو دوسری جماعت میں پڑھتی ہے، اسے ان باتوں کا کچھ پتہ بھی نہیں، لوگ کیا کہیں گے؟ ”
وہ رکے بنا، ایک ہی سانس میں کہتی چلی گئیں اور ہم دم سادھے انہیں دیکھتے رہے۔
”دیکھیے، لوگوں کو تو آپ ایک دم بھول جائیے۔ آپ کی بیٹی کی ماہواری سے ان کا کوئی تعلق نہیں“
یہ کہتے کہتے ہمارے دل میں ایک بھولی بھٹکی یاد سرسرائی، گویا کسی نے ہلکے سے چٹکی بھر لی ہو۔ کیا واقعی بیٹی کی ماہواری رشتے داروں، دوست احباب اور معاشرے کا مسئلہ نہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم زندگی کے امتحانات سے الجھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ نوکری، پڑھائی، بوڑھے والدین اور بچوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ، کچھ عیاں اور کچھ ڈھکا چھپا۔
ایسے میں اگر ایک خوشگوار صبح آپ کی دس برس کی بیٹی آپ کو بستر میں جھنجھوڑے اور باتھ روم آنے کو کہے، اور باتھ روم میں خون سے بھرا پاجامہ پڑا ہو تو یقین جانیے ڈاکٹر ہونے کے باوجود آپ ہکا بکا اور بد حواس ہو کے بیٹی سے پوچھ سکتے ہیں، کیا کہیں چوٹ لگی ہے بیٹا؟
دس برس کی دبلی پتلی، قد بت سے چھ سات برس کی دکھتی، آنکھوں میں حیرت، ڈر اور خوف کے تاثرات لیے کا جواب آپ کے لئے سر پہ آسمان گر پڑنے کے مترادف ہی ہو گا نا۔
”نہیں امی، میں تو سکول کے لئے تیار ہونے آئی تھی، کموڈ پہ بیٹھی تو وہاں بھی یہ خون آ رہا تھا۔ یہ کیا ہے امی، کیا ہوا؟“
اب یہ کسے خبر تھی کہ دس برس کی بچی کو ماہواری آ جائے گی، اس لئے ابھی تک بیٹی کو ان اسرار و رموز سے آگاہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔
ہمیں اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا، یا اللہ اتنی چھوٹی سی بیٹی اور اس عمر میں پالا کس سے پڑا جس کے متعلق معاشرے میں نہ صرف بات کرنا منع ہے بلکہ شرم و حیا اور رازداری کے لاحقے بھی اس سے منسلک ہیں۔
اب کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیوں محسوس کیا؟
اتنے افسردہ تو ہم اپنی ماہواری کے موقعے پہ نہیں ہوئے تھے اور پندرہ برس کی عمر میں اسے بڑی بہادری اور خوش دلی سے نبھایا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ پینتیس برس کی عورت جو ڈاکٹر بھی ہے، وہ بیٹی کی ماہواری آنے پہ اداس ہو گئی۔
ہمیں ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ نوعمری میں ابھی ہم حقیقت سے بہت دور زندگی کے رومانس میں زندہ تھے اور زندگی محض تتلیوں سی خوش رنگ اور آسمان پہ اڑتے بادلوں سی نظر آتی تھی۔ مزید دو دہائیوں کا سفر گزارنے کے بعد زندگی کے رومانس کا رنگ کہیں کہیں سے اڑ کر اپنی بد رنگی ظاہر کرنا شروع ہو چکا تھا۔
بیٹی کی ماہواری پہ یہ احساس ہمیں دکھی کرتا تھا کہ عورت اور لڑکی کو قدم قدم پر جن آزمائشوں اور رویوں کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے، ہماری بیٹی کو ان کا سامنا ابھی سے کرنا ہو گا۔ ابھی۔ جب وہ بچپن کی سرحد پار کر کے بلوغت کی منزل تک بھی نہیں پہنچی تھی۔
اب اس کی زندگی کا ڈھب مختلف ہو گا۔
ماہواری کے دنوں کا حساب، پیڈ کا استعمال، پیڈز کی خریداری اور خاکی لفافے، استعمال شدہ پیڈ کی احتیاط، کپڑوں پہ داغ لگنے کا خوف، سکول میں پیڈ اور ایکسٹرا لباس کی ضرورت، درد کی صورت میں پین کلر کی موجودگی، زیادہ بلیڈنگ ہونے کی صورت میں خون کی کمی کا شکار، صفائی کا خاص خیال کہ کوئی انفیکشن نہ ہو جائے۔ یہ سب تو بچی کو اپنے جسم کے ساتھ بھگتنا ہی ہو گا مگر وہ جو اس کے علاوہ ہو گا، اس کا سامنا ماں بیٹی دونوں کو کرنا ہو گا۔
ننھیال ددھیال کی پوچھ گچھ، تعجب اور تشویش کا بڑھا ہوا اظہار، یہ خبر سب سے چھپانے کی تاکید، پیڈز کی گھر کے کلینر تک سے احتیاط، طہارت کے مسائل کی یاددہانی، بیٹی کی عمر اور جلد ماہواری پہ سو سو سوال۔
یقین جانیے، ہم اس سب سے گزرتے ہوئے کئی دفعہ جھنجھلاتے کہ بیٹی بہت کم عمر تھی اور اسے ہماری مدد کی ضرورت رہتی تھی۔ پیڈ فکس کرنا تاکہ اس کو چلنے میں دشواری محسوس نہ ہو، کپڑوں میں داغ لگ جائے تو مدد کو پہنچنا، سائیکل نہ چلا پانے پہ اس کو تسلی دینا، آنسو بھری آنکھیں دیکھتے ہوئے اپنا اضطراب چھپا کر اس کا دھیان بٹانا، درد کی صورت میں دوا کھلانا اور سکائی کرنا تو ہم کر ہی لیتے۔ لیکن سب سے زیادہ مشکل ہمیں تب پیش آتی جب قرآن پڑھانے والے مولوی صاحب کو مخصوص دنوں میں چھٹی کے لئے کہا جاتا۔
ایک اور مسئلہ مفت مشورے تھے۔ ہمیں کبھی ہنسی آتی اور کبھی سر پیٹ کے رہ جاتے جب گائناکالوجسٹ ماں کو قریبی رشتے دار اور احباب مشوروں سے نوازتے۔ ہم ہمیشہ حیرت سے سوچتے کہ کیا ان کے خیال میں ہم نے اپنی ڈاکٹری کی ڈگری کہیں سے خریدی ہے، یا ہماری ڈاکٹری اس قابل نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی ماہواری سمجھ سکے۔ شاید بنا پوچھے مشوروں سے نوازنا ہماری معاشرتی اقدار میں شامل ہے۔
کئی مرحلے ایسے آئے جس نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے ماحول میں عورتوں کے مسائل کے لئے کوئی جگہ نہیں بالکل ایسے جیسے وہ زندگی کا حصہ ہیں ہی نہیں۔
ہمیں کبھی نہیں بھولے گا مری کا وہ سفر جب بیٹی کی ماہواری ناگہانی طور پہ مقررہ تاریخ سے بہت پہلے آ گئی اور اس نے ہمیں دن میں تارے دکھا دیے۔
مری اتنا نزدیک ہے کہ پنڈی کے باسی مری چائے پینے بھی جا سکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی دن بیٹھے بیٹھے پروگرام بنا اور ہم بچوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ گھر سے چلے تو سب ٹھیک تھا مگر مری پہنچ کے گاڑی سے اترے تو بچی کی پینٹ خون سے آلودہ۔
اب صورت حال کچھ یوں بنی کہ پیڈز پاس ہیں نہیں کہ ماہواری آنے کی تاریخ ہی نہیں تھی۔ قرب و جوار میں کوئی باتھ روم بھی نہیں کہ بچی کو دھلایا جائے اور کچھ پیڈ وغیرہ کا بندوبست کیا جائے۔ قریب ترین آرمی میس تک پیدل چلنے کا فاصلہ اس حلیے میں کیسے طے کریں اور وہ جو بلیڈنگ ہو رہی ہے اس کا کیا کریں؟
چار و ناچار گاڑی میں ہی اسے چھوٹی بیٹی کا پیمپر بہت مشکل سے باندھا گیا۔ وہ بند تو نہ ہوا لیکن پینٹ میں مشکل سے اٹکا لیا گیا۔ گاڑی میں یہ سب کچھ کرنا کتنا مشکل اور بچی کے چہرے پہ جو بدحواسی اور بے بسی تھی وہ آج تک نہیں بھولتی۔ چونکہ کچھ گھنٹوں کے لئے گئے تھے اور رکنے کا ارادہ نہیں تھا اس لئے چھوٹے بچوں کے فالتو لباس تو تھے لیکن بڑی کے لئے کچھ نہیں رکھا تھا۔ یہ ہماری غلطی تھی اور اسی سے ہم نے سبق سیکھا۔
اب اس چھوٹی سی بچی کو خون آلود پینٹ کے ساتھ میس کے باتھ روم تک کیسے لے جایا جائے، یہ ایک سوال تھا۔ ہم نے اپنا دوپٹہ اتارا اور اس کی کمر کے گرد باندھا۔ شوہر نامدار کو میڈیکل سٹور کی طرف پیڈ لینے روانہ کیا اور خود ایک دس ساڑھے دس برس کی پریشان حال بچی، دوسری پاؤں پاؤں چلتی اور پرام میں بیٹھے شیرخوار کو دھکیلتے میس تک پہنچے۔
میس پہنچتے ہی ہم دونوں باتھ روم میں بند ہوئے جہاں اس نے شاور لیا اور ہم نے اس کے کپڑے دھوئے۔ جب تک ہم نے کپڑے سکھا کر استری کیے ہمارے دوپٹے نے اس کا ساتھ دیا۔ اس سارے کرائسس میں فوجی ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل حال رہی۔ غیر متوقع ماہواری نے ہماری پکنک کا بیڑا غرق تو کیا ہی تھا لیکن ہمیں اس دن اندازہ ہوا کہ لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں؟
اب سوچتے ہیں کہ ماہواری کو اگر اس قدر شرمندگی اور ہچکچاہٹ سے جوڑ کے نہ رکھا جاتا تو پارکنگ لاٹ سے میس تک پہنچنا کس قدر آسان ہو تا۔ وہ مختصر سا راستہ بے شک ہمارے اعصاب پہ بہت بھاری گزرا تھا۔
ہماری بیٹی ماہواری کے ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے ان تمام مشکلات کا ادراک بخوبی رکھتی ہے، اسی لئے اس کے ماسٹرز تھیسس کا موضوع بھی ماہواری تھا۔ یقین جانیے نیویارک کی ایک سہانی شام، یونی ورسٹی گریجویشن تقریب میں اس کے محسوسات کو سننا، سوچ کے بہت سے در وا کر گیا اور ہم نے سوچا کہ ایک گائناکالوجسٹ کی بیٹی کے لئے یہ مراحل دشوار ہو سکتے ہیں تو دوسری بچیوں کے لئے یہ مراحل دشوار تر اور اذیت ناک ہوتے ہوں گے۔
اسی دن ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم ماہواری کا ٹیبو توڑ کے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر