نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کا علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کا اعلان||سارہ شمشاد

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری ترجیح الیکشن جیتنا نہیں بلکہ عوامی خدمت ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری ترجیح الیکشن جیتنا نہیں بلکہ عوامی خدمت ہے۔ گوادر پاکستان کا فوکل پوائنٹ بننے جارہا ہے۔ ماضی میں بھارت رنجشوں کو انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہو لیکن اب وہ حالات نہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت سب سے بڑا لورز ہے۔ صورتحال خطرناک ہے۔ امریکہ کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہاں کیا کرنا ہے۔ تمام ہمسائے سیاسی تصفیے کے خواہش مند ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے عسکریت پسندوں سے بات چیت بارے سوچنے کے اعلان کو ہر طبقے کی جانب سے خوش آمدید اس لئے کہا جارہا ہے کہ چلو کوئی تو ہے جو اس ملک کے اصل اور حقیقی ایشوز کو ایڈریس کرنے کی جرات کررہا ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے وطن عزیز کا سب سے بڑا صوبہ جس بری طرح سے م اضی میں نظرانداز ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی کہ ایک ایسا صوبہ جسے قدرت نے بیش بہا قدرتی خزانوں سے نوازا ہے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس صوبے کو اس کا وہ جائز حق نہیں دیا گیا جو وقت کا تقاضا تھا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ان سب نے بلوچ عوام کو سہانے سپنے تو بہت دکھائی مگر عملی طور پر اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کو درخورِاعتنا نہ سمجھا اور آج اگر بلوچستان پتھر کے زمانہ کی تصویر پیش کررہا ہے تو اس کے ذمہ دار حکمران ہی ہیں جنہوں نے اس صوبے کو شعوری طور پر پسماندہ رکھا اور پھر جب علیحدگی پسندوں اور ملک دشمن طاقتوں نے معصوم بلوچوں کو چند ٹکے کا لالچ دے کر اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو ہمارا سب سے بڑا صوبہ حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گیا۔
درحقیقت یہ محرومیاں، مجبوریاں اور مسائل ہی ہیں جن کی بنا پر ملک دشمن بالخصوص بھارت کو انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان تمام قومی اور بین الاقوامی معاملات پر ایک واضح پوزیشن لینے جارہے ہیں یہی وہ اصل اپروچ اور پالیسی ہے جس کی کمی ایک طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی اور آج جب وزیراعظم نے علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوں سے بات چیت کے حوالے سے کابینہ کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے اور واضح کیا ہے کہ صرف ان علیحدگی پسندوں سے بات کی جائے گی جو بھارت سے رابطے میں نہیں ہیں بالکل درست ہے اس لئے وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے رستے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا جب معاملات نشستن، گفتن اور برخاستن سے آگے بڑھیں گے کیونکہ ماضی میں بھی اس قسم کے دعوے اور وعدے بڑی شدومد کے ساتھ کئے گئے اور اب جب معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آزاد بلوچستان تک کا نعرہ لگادیا گیااور وہ جو کل تک اپنے تھے، باغی ہوگئے اور اپنے ہی وطن کے خلاف دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے تاہم اب معاملات بہت مختلف صورت اختیار کرتے جارہے ہیں کیونکہ محب وطن بلوچ رہنمائوں نے ملک دشمن طاقتوں کے عزائم کو ہمیشہ ناکام بنایا اسی لئے تو اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بھی کوئی وطن عزیز کا بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بلوچستان کے اصل مسائل کیا ہیں تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا کہ سلگتے ہوئے مسائل میں دو دہائیوں سے بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر ملازمتوں کا حصول، دوسرا کرپشن اور تیسرا بلوچستان کے وسائل پر بلوچوں کی بجائے دیگر صوبوں سے لوگوں کو لاکر تعینات کرناہے۔ یہ وہ 3اہم ترین ایشوز ہیں جن کو وزیراعظم کو علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنے سے قبل ایڈریس کرنا چاہیے تاکہ بلوچوں میں یہ سوچ پیدا ہوسکے کہ خان صاحب دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہیںبہتر یہی ہوگا کہ ماضی کے حکمرانوں پر تنقید کرنے کی بجائے عملی اقدامات کو اپنی اولین ترجیح سمجھا جانا چاہیے۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کی سوچ پاکستان کی سوچ ہے تو اس سوچ کو فروغ دینا بھی تو ہم سب کا ہی کام ہے۔ اب جبکہ سی پیک کو پاکستان کا فوکل پوائنٹ اور گیم چینجر کہا جارہا ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس خطے کے لوگوں کو اس کی ترقی سے مستفید کیا جائے کیونکہ جب تک اس صوبے کے لوگوں کو دیگر صوبوں کے برابر نہیں لایا جائے گا اس وقت تک ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ بھارت کو سی پیک اول دن سے ہی کھٹک رہا ہے اسی لئے تو اس کو ناکام بنانے کے لئے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ پر خطیر سرمایہ کاری بھی کی لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ سی پیک کے مقابلے میں خاصا مہنگا اور پیچیدہ ہے جس کے باعث مطلوبہ مقاصدپورے نہ ہوسکے۔ بلوچ عوام نے قیام پاکستان میں جو لازوال قربانیاں دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ایسے میں اگر کوئی بلوچوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے گا تو ان میں غم و غصے کی لہر دوڑنا ایک فطری عمل ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرناچاہیے کہ ماضی میں ہم سب سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں جن کی بنا پر بلوچستان کے زخم اور اب جب یہ ناسور بنے تو ہم نے اس کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے پر ہی الزام تراشی شروع کردی۔ اب جبکہ پاکستان میں عوام نے دہشت گردی کے عفریت کو مضبوط اعصاب کے ساتھ شکست دی ہے تو امن و امان کی اس کوشش کو دیرپا بنانے کے لئے ہمیں ابھی سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں خاص طور پر اس وقت جب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا تقریباً مکمل ہوچکا ہے تو ضروری ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے کیونکہ افغانستان سے جو خبریں سننے کو مل رہی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں کہ افغانستان کے بڑے حصے پر طالبان نے اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور وہاں لاقانونیت اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس افراتفری کے ماحول سے پاکستان خود کو کسی طور علیحدہ اور دور نہیں رکھ سکتا اس لئے معاملات کو ڈنگ ٹپائو سے چلانے کی بجائے حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے تاکہ کسی تیسرے کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔
پاکستان بلاشبہ اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہا ہے جہاں حکومت سمیت تمام ادارے ایک ہی پیج پر ہیں اور ہم آواز ہوکر ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں تو ضروری ہے کہ
معاملات کو ڈنگ ٹپائو پالیسی کا سہارا لے کر چلانے کی بجائے قومی پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے اور بلوچوں کی اصل رنجشوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کی فی الفورسبیل کی جائے اور ان کی دکھ بھری داستان سن پر ان پر ان کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے ایک ایسی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں سیاستدانوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ فوج کے بھی نمائندے شامل ہوں تاکہ جس کو جس فریق سے مسائل یا پریشانی ہو وہ اس کو بھی حل کرے۔ اسی طرح مسنگ پرسنز کے حوالے سے بھی فریقین کو جو پریشانی ہے اس کو بھی ایڈریس کیا جانا چاہیے۔ ابھی چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے انتہائی اہم بات کی تھی اس کو مدنظر رکھ کر معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اسی طرح منظور پشین، علی وزیر اور محسن داوڑ کے لوگوں کی اراضی پر قبضہ کرنے کے حوالے سے بھی عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جانا چاہیے تبھی جاکر گلے شکوے دل سے دور ہوپائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک اہم کام کی طرف قدم بڑھایا ہے جس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے لیکن اگر وہ اس مشکل کام کو خوش اسلوبی سے انجام دینے میں کامیاب ہوگئے اور تمام فریقین کو قومی دھارے میں ڈھالنے میں سرخرو ہوگئے تو وطن عزیز کو ترقی کے راستے پر جانے سے کوئی نہیں روک پائے گا کیونکہ جب تمام اکائیاں مل کر ملک کواوپر اٹھانے کی جدوجہد کریں گی تو دشمن اپنی موت آپ مرجائیں گے اور میرے پیارے وطن کو آج جتنی اتحاداور یقین کی ضرورت ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی۔ سب اپنی انائوں کو پس پشت ڈال کر کمزور اور محب وطن بلوچوں کو ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author