شمائلہ حسین
میں نے اور میری بڑی بہن نے اب کی بار کسی نجی وجہ سے عید راولپنڈی میں منائی۔ نہ وہ اپنے سسرال جا سکی اور نہ میں اپنے اماں ابا کے پاس گئی۔ البتہ گھر والوں سے یہ خبریں ملتی رہیں کہ عید قربان کے سلسلے میں جانور لے لیے گئے ہیں۔
تیاریاں عروج پر ہیں۔ ہم گھر والوں کو یاد کر کر کے اداس تھے لیکن اپنے آس پاس جانوروں کی چہل پہل دیکھ کر خوش بھی تھے۔ ہر گلی محلے میں بکرے، بیل، دنبے اور دیگر قربانی کے جانور دیکھ دیکھ کر بچپن کی عیدیں بھی یاد کر رہے تھے۔
جب ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے ہی بکرا یا دنبہ گھر لا کر باندھ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے ناز نخرے اٹھانے کا کام شروع ہوجاتا تھا۔
پچھلے ایک ہفتے سے ہماری گلی میں بھی پڑوسیوں نے دو بیل لا کر باندھ رکھے تھے۔ ان کی وجہ سے گلی سے گاڑی نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی رہی۔
اوپر سے بارش کی وجہ سے پوری گلی میں کیچڑ اور گوبر کی آمیزش سے ایک عجیب طرح کا گارا بن گیا جس میں سے پیدل گزرنا مشکل ہوگیا۔
بہن کو غلطی سے گیسٹ روم میں ٹھہرا دیا تو ساری رات وہ سو نہیں پائی جانوروں کا شور اور گاڑیوں کے ہارن اس کی نیند میں مخل رہے۔
لیکن ان سب کے باوجود ہم نے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔
اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ گلہ کرنے سے جانور کہیں جاتے نہ یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی البتہ محلے داروں سے بگڑ جاتی۔
دوسری وجہ یہ کہ ایک ہفتے کی بات ہے آخر ان کا گوشت ہمیں بھی تو کھانے کو ملنا تھا۔ اور یہ خیال زیادہ قوی تھا۔
اور سچ پوچھیں تو انہیں دیکھ دیکھ کر خیالوں میں تازہ گوشت کے تکے ، کباب اور پلاؤ کی مہک بھی دو روز قبل ہی مجھے ستانے بھی لگی تھی۔
ایسا نہیں کہ فدوی نے کبھی گوشت نہیں کھایا لیکن قربانی کے گوشت کا صاف ستھرا اور تازہ ہونا اس کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے اور یہ خوبی مجھ جیسے گوشت خوروں کو سال بھر اس دن کا انتظار کرواتی ہے۔
جو لوگ قصائی کے کھوکھوں یا سپر سٹورز سے گوشت خریدتے ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یہ چھوٹا گوشت ہو یا بڑا جلدی گلتا نہیں، ایسا ذائقے دار نہیں ہوتا اور یہ گارنٹی بھی نہیں ہوتی کہ جانور صحت مند ہوگا یا نہیں اب تو یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ مٹن اور بیف کے نام پر مردار یا حرام جانور کا گوشت ہی نہ تول کر تھما دیا گیا ہو۔
بہر حال بات ہو رہی تھی کہ گلی میں بندھے دو بیلوں کی جنہیں میں دیکھ دیکھ کر سوچتی رہی کہ ان پر ہمارا بھی اتنا حق تو ضرور بنتا ہے کہ ایک وقت کا پلاؤ یا کباب ہمیں نصیب ہو سکیں۔۔
عید سے ایک رات پہلے تک جب میری بہن گھر کی رونقوں اور پکوانوں کو یاد کر کے اداس ہو رہی تھی ایسےمیں میں نےسونے سے پہلے بہن کو تسلی دی کہ ہمارے علاقوں میں یہ رواج رہا ہے کہ جس گھر کے سامنے جانور نہ بندھا ہو اس گھر میں گوشت ضرور بھیجا جاتا ہے۔
بھلے وہ صاحب استطاعت ہوں یا نہ ہوں۔ ہمیں بقر عید پر چکن نہیں کھانا پڑے گا بے فکر رہو۔
عید کے پہلے روز دس گیارہ بجے کے قریب میں نے گلی میں جھانک کر دیکھا تو دونوں بیل نہیں تھے۔ کسی چھوٹے بچے کی طرح میں نے خوش ہو کر بہن سے کہا آج تو بیف کباب کھائیں گے۔
لیکن دوپہر کے بعد تک ہمارے گھر کسی نے کچھ نہ بھجوایا۔
البتہ دعوت کے سلسلے میں دوست کے گھر جانے کے لیے نکلے تو گلی میں جگہ جگہ اوجھڑی کے ڈھیر اور اس گارے میں خون کی آمیزش سے جو سرخ رنگ کا ملغوبہ بد بو کے جھونکے پیدا کر رہا تھا وہ الگ ہی اذیت ناک منظر بن چکا تھا۔
دوست کے ہاں پہنچے اس تناظر میں جب ہم نے ازراہ تفنن اپنا مذاق خود اڑایا کہ اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی ان دو صحت مند بیلوں کی پاٹی پشی ، خون اور دیگر آلائشیں دیکھنا نصیب ہوئیں۔
کیسا شہر ہے یہ ہمارے ہاں تو بطور خاص نظر رکھی جاتی ہے کہ کس کے ہاں گوشت لازمی بھجوایا جانا چاہئے اور کس کے ہاں نہ بھی جائے تو کوئی گلہ نہیں دیا جائے گا۔
معلوم پڑا کہ یہاں تو لوگ اس کے گھر بھیجتے ہیں جہاں سے گوشت آیا ہو۔ چونکہ تمہاری طرف سے کسی کی طرف نہیں بھجوایا گیا تو کوئی تمہیں کیوں بھیجے گا۔
ہم حیران پریشان کہ وہ مذہبی نظریات اور معاشرتی اخلاقیات کیا ہوئیں۔ رشتے داروں، محلے داروں اور غریبوں کا حصہ کیا ہوا۔
چلو ہم تو پہلی بار غریب الوطنی میں عید گزار رہے ہیں تو گھر میں دی گئی قربانی کے گوشت میں اپنا حصہ نہیں پا سکے۔ لیکن اس کا مطلب ہے کہ اونچے شہروں کے مزاج بھی اونچے ہی ٹھہرے۔
یہاں اکثریت واقعی قربانی کے نام پر دکھاوا کرتی ہے؟
کیا پڑوسیوں کا خیال رکھنے کے معاملات واقعی متوسط طبقے کی اخلاقیات کا حصہ ہی ہیں۔
بھائیو اور بہنو آپ سے درخواست ہے کہ ان محلے داروں کا خیال کیجئے جنہوں نے ہماری طرح آپ کی قربانی پر اپنا آرام اور سکون قربان کیا۔۔۔
رب راکھا
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو پر شائع ہوچکا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر