نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خُوش رہنا سیکھیے||گلزار احمد

خیر مجھے یہاں خود اپنے گھر اور وطن میں اجنبیت سی محسوس ہونے لگی۔ لڑکے آپس میں کم مکس ہوتے اور ریزرو سے رہتے۔ گپ شپ ۔لطیفے وغیرہ سے گریز کرتے ۔میں کھلی فضاٶں کا اڑنے والا پنچھی اپنے آپ کو محدود سمجھنے لگا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔
دنیا میں کرونا وائرس نے ایک عجیب ڈیپریشن کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ہم ڈیرہ والوں کی روایت ہے جب دوست ملتے ہیں تو گُھٹ کے گلکڑی نہ ڈالتے تو سِک نہیں مٹتی تھی۔ہاتھ ملاتے تو دیر تک تھامے رکھتے۔اب ان تمام چیزوں پر سختی سے پابندی ہے۔ ایسا لگتا ہے اب انسانوں کی سطح سے گر کر ہم zombie بن گئے ہیں۔ zombie دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جو خود کچھ نہ سوچے اور ریموٹ کی ذریعے کسی کے کنٹرول میں ہو جیسے ہمارے ہاں کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں۔ پہلے سارا دن دوستوں رشتہ داروں سے گلہ کرتے تھے تم ملنے نہیں آتے۔اب کوئی دوست فون کر دے کہ ملنے آ رہا ہوں تو ہم فورا” پوچھتے ہیں ۔۔خیر تو ہے؟ جس کا سیدھا مطلب ہے مت آٶ۔ ہماری عورتوں کی عادت ہے وہ بڑابڑا کر دعائیں مانگتی ہیں۔ اگر بیوی آپکے ساتھ گزرتے ہوئے کرونا کا نام لئے بغیر یہ کہے۔۔ پتہ نہیں یہ بلا کب ٹلے گی؟ تو گمان ہوتا ہے مجھ سے تنگ ہے اور کرونا کے ٹلنے کی نہیں مجھ سے کہ رہی ہے ۔ لیکن میری خوش قسمتی یہ ہے کہ اللہ نے مجھے بچپن سے ایسے ماحول میں رکھا کہ میں خوش رہنے کے کچھ گُر سیکھ گیا۔ آج آپ کے ساتھ بھی شئیر کرتا ہوں ہو سکتا ہے اداسی کے اس موسم میں آپ کے کام آئیں۔ میری سکول لائف پرانے لاھور میں گزری ۔ جب سڑکوں پر ڈبل ڈیکر۔ مورس ٹیکسیاں اور تانگے رہڑے گھومتے پھرتے تھے۔ویسپا سکوٹر بھی ایک سٹیٹس سواری تھی۔ لاھور کی زندگی سینماٶں سے پُر تھی۔ سر شام گلی میں چارپائیاں۔پیڑھیاں بچھ جاتیں اور حقے کے دور کے ساتھ قہقہے چلتے۔ لڑکیاں علیحدہ ۔خواتین علیحدہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھی ہنس رہی ہوتیں جیسے خواجہ غلام فرید نے کہا ہے حوراں پریاں ٹولے ٹولے ۔لڑکوں کا شغل سائیکل۔سڑکیں۔سینما۔ باغات اور بہترین لباس تھا۔ سب سے اہم چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ لاھور کا کھلا ڈُلا ماحول اور کھلے ڈُلے لوگ تھے۔ میں جس سے بھی ملا چاہے وہ اساتذہ۔طلبا تھے یا محلے کے لوگ بہت پرتپاک طریقے سے ملتے اور بڑی اپنایت محسوس ہوتی۔ ہمارے ہاں والے سکولوں۔کالجوں والا خاموش ماحول بالکل نہیں تھا۔ راتوں کو بیٹھ کے ہنسنا۔لطیفے۔قہقہے ۔باغوں کی سیر سب زندگی کا ایک حصہ تھا جس میں خواتین بچے بڑے بوڑھے سب حصہ لیتے۔ کام بھی خوب محنت سے کرتے اور زندگی کو انجاے بھی کھلے دل سے کرتے۔ ہمارے شھر ڈیرہ کا ماحول اور سکول کا ماحول بالکل ایک خاص اصولوں و قواعد کا پابند تھا۔ اگرچہ میرا بچپن تھا اور میرا مشاھدہ بھی تیز نہیں ہوا دیہاتوں میں تو لڑکے بالے چونکوں میں جمع ہو کر شغل میلہ لگاتے مگر شھر میں باغات وغیرہ کم تھے ایک دریا کا کنارہ اور بس۔ لاھور کی دنیا جدا تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کا رہن صحن ۔ڈریس۔ کھانے کی اقسام۔ رسم و رواج ۔صفائی ستھرائی کا معیار سب مجھے بہت متاثر کرتا ۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ لاھور کے لوگ خوشی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور خوب انجاے کرتے۔یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ لاھور کے غریب امیر سب خوش باش اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔لاھور کی مسجدیں بھی بہت آباد تھیں صبح نماز کے بعد گاف روڈ کی شاہ شمس کاری مسجد میں بڑی ذکر اور درود و سلام کی محفل ہوتی اور میں منہ اندھیرے اس محفل میں شرکت کر کے ایک روحانی سکون محسوس کرتا۔
میں نے میٹرک کا امتحان لاہور سے اعلی نمبروں میں پاس کیا اور ڈگری کالج ڈیرہ میں Fsc
میں داخلہ لے لیا۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ سو سال پرانا تاریخی ڈگری کالج ڈیرہ کو اب BS کالج میں تبدیل کر دیا گیاہے اور اس کا اوریجنل تاریخی رول ختم کر کے یہاں کے بچوں کو رول دیا گیا اور اس کو ختم کرنے میں ہمارے عقلمند تعلیم و تربیت سے بے بہرہ لوگوں کا ہاتھ ہے۔ عطا اللہ عیسی خیلوی کا گیت ہے ؎ بول سانول نہ رولیں سانوں۔وے کنڈیاں دے وچ نہ تولیں سانوں۔ ہمیں کنڈیاں دے وچ تول دیا گیا۔ بات دور چلی گئ۔
خیر مجھے یہاں خود اپنے گھر اور وطن میں اجنبیت سی محسوس ہونے لگی۔ لڑکے آپس میں کم مکس ہوتے اور ریزرو سے رہتے۔ گپ شپ ۔لطیفے وغیرہ سے گریز کرتے ۔میں کھلی فضاٶں کا اڑنے والا پنچھی اپنے آپ کو محدود سمجھنے لگا۔ خیر آہستہ آہستہ میں نے اپنے مزاج کے لڑکے ڈھونڈ نکالے اور انکو کچھ اپنی ڈھب پہ لے آیا۔البتہ جو ماحول کا فرق تھا اس کو نوٹ کرنے لگا۔ اور کچھ دھندلے دھندلے نقش بنا لیے کہ انسان خوش رہنے کے لیے کیا کرے اس طرح زندگی پٹڑی پر چلنے لگی۔
ان باتوں کے سائنسی راز کا تو مجھے پتہ نہیں تھا لیکن بہت عرصے کے بعد ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ کی ایک سٹڈی سامنے آئی جو وہ ستر سال سے کر رہے تھے کہ دنیا کے مطمین۔کامیاب اور خوش لوگ کون ہیں اور ان میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب اس سٹڈی کو شایع کیا گیا تو پتہ چلا دنیا کے سب سے زیادہ خوش اور مطمین لوگ دولتمند مند نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے رشتے۔دوستیاں اور تعلقات نبھاۓ ۔ جو رشتوں میں دراڑوں کو مرمت کر دیتے اور رشتوں کے بندھن کو ٹوٹنے نہیں دیتے تھے وہ سب سے خوش اور مطمئن نکلے۔ تو لاھور میں اس وقت ایسا ماحول تھا کہ سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنا سیکھ چکے تھے اس کو اپنی ثقافت کا حصہ بنا چکے تھے سڑیل مزاجی اور رُسیمے دیکھنے کو بھی نہیں ملتے تھے کیا اپنے کیا پراے سب ایک لڑی میں پروے دانوں کی طرح آگے بڑھ رہے تھے۔اب جو سائنسی فارمولا وجود میں آیا ہے وہ انسان کو چار جہتوں سے دیکھتا یا ناپتا ہے ۔نمبر ایک pq یا فزیکل کوشنٹ ہے اس میں انسان کی اچھی صحت کو دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص صحت مند ہے وہ کیا کھا رہا اور زیادہ تو نہیں کھا رہا۔ وہ مناسب ایکسر سائیز اور نیند کر رہا ہےاور سب سے اہم چیز زندگی میں leasure time ہے بغیر کسی کام اور مطلب کے دوستوں میں بیٹھنا۔گپیں مارنا۔قہقہے لگانا اور خوش رہنا۔دوسرا نمبر Iq یا انٹیلیجنس کوشنٹ ہے جو اس کی ذہانت اور معاملات کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت ظاہر کرتا ہے۔اس کو تیز کرنے کے لیے آپ کو روزانہ کچھ سیکھنا پڑتا ہے کوئی کتاب پڑھیں کوئی ہنر سیکھیں بس اپنے آج کو گزشتہ کل سے بہتر بنائیں ۔تیسرا Eq یا اموشنل کوشنٹ یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جذباتی طور پر کتنا متوازن ہے اور لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ Eq میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کو غصہ زیادہ آتا ہے؟ اگر غصہ آتا ہے تو بس آپ تباہ ہیں کیونکہ دانش کی تمام صلاحیتیں غصہ چاٹ لیتا ہے۔آپ دوسروں کے احساسات اور اپنے احساس کو سمجھ کر کوئی درمیانی صورت نکال سکتے ہیں تو کامیاب انسان ہیں۔چوتھا اور آخری نمبر Sq یا سپریچویل کوشنٹ کو دیا گیا ہے اس کا مذھبی لحاظ سے تو سیدھا مطلب روحانی شخصیت ہے لیکن اگر مذھب سے ہٹ کے دیکھیں تو اس کا مطلب ہے ایک شخص جو کام کر رہا وہ کسی بلند مقصد کے لیے یا بس اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ مثلا” ایک ڈاکٹر دن رات محنت کر کے اس لیے پیسہ کما رہا ہے کہ اس کی گاڑی بڑی۔بنگلہ بڑا ہو اور دوسرا ڈاکٹر اسی قسم کی محنت کر کے یہ سوچ رہا ہے میں فالتو پیسوں سے یتیم بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرونگا تو دوسرے ڈاکٹر کا مقصد بلند اگرچہ کام برابر ہے۔ تو جب یہ تمام ڈایمنشن اعلی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو آپ خوش باش اور خوش قسمت انسان بن جاتے ہیں۔

About The Author