رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مادیت پرست فقیروں کو یہ سن کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کے بچے مغرب خصوصاً برطانیہ اور امریکہ کی مشہور جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ متوسط اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہونہار طالب علموں کے لیے بھی دروازے کھلے ہیں‘ اور اگر مطلوبہ امتحانات میں امتیازی پوزیشن حاصل ہو تو فیسیں معاف اور گزارہ الائونس بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اکثریت کا تعلق کھاتے پیتے‘ اہلِ ثروت خاندانوں سے ہے۔ وہاں کی جامعات میں داخلے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے امیدوار درخواستیں جمع کراتے ہیں۔ بھاری فیسیں دینے کے لیے بھی تیار‘ مگر داخلہ معیار اور صلاحیت کی بنیاد پر ملتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آکسفورڈ اور ہارورڈ میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ امیدوار کے والدین میں سے کسی نے وہاں تعلیم حاصل کی ہے یا نہیں‘ اس سے کچھ ترجیحی نمبر تو ضرور مل جاتے ہیں‘ مگر جامعات کھیلوں میں امتیازی حیثیت‘ اداکاری‘ ادب اور شاعری کے شغف کو بھی داخلے کا فیصلہ کرتے وقت پیشِ نظر رکھتی ہیں۔ دھن دولت کے آپ کے پاس انبار ہوں تو اس کے زور پر آپ کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ محترمہ مریم نواز کے فرزند اس قدیمی اور اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اس سے زیادہ یہ خوشی ہے کہ جنید صفدر پولو کا کھلاڑی ہے۔ چند مرتبہ وہاں کانفرنسوں میں شمولیت کی غرض سے جانا پڑا اور چند دن قیام بھی کیا۔ یہ خاکسار ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہے‘ جن کی زندگیاں جامعات کے درودیوار میں گزری ہیں۔ کیمبرج اور آکسفورڈ یا برطانیہ کی کوئی اور یونیورسٹی ہو‘ ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ امریکہ کی جامعات اپنی تاریخ اور علمی ثقافت کے لحاظ سے بھی منفرد ہیں۔ میاں نواز شریف کے خاندان کے لیے فخر اور خوشی کی بات ہے کہ ان کی تیسری نسل میں سے برطانیہ کی جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ میں تو ان کے اس افتخار اور خوشی میں شریک ہوں۔
عمران خان صاحب چند موروثی خاندانوں کی دولت‘ ناجائز کمائی‘ بیرونی ممالک میں غیرقانونی ترسیلِ زر اور وہاں جائیدادوں کی بات گزشتہ بیس سالوں سے کر رہے ہیں‘ بلکہ ان کی سیاست کا بنیادی نکتہ ان خاندانوں کو للکارنا‘ حساب لینا‘ ان کی سیاست کو‘ ممکن ہو تو‘ ختم کرنا ہے۔ اب یہ سیاسی خانوادے نہیں‘ سیاسی جماعتوں کے مالک ہیں۔ دو بڑی جماعتیں خاندانی سربراہوں کے اشاروں پہ چلتی ہیں۔ آگے زیادہ تر وہی ہیں جو چاپلوسی کے ماہر ہیں اور روزانہ ان کے دفاع میں لگے رہتے ہیں۔ جتنا کچھ کوئی لکھتا اور بولتا ہے‘ اتنا وہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ بھی تو ان کے گھر سے نہیں جاتا۔ نوازنا اور سرپرستی کرنا جاگیردارانہ جمہوریت کے مزاج میں ہے۔ طفیلیوں کی بڑی تعداد ہے‘ جو بستے اور بریف کیس اٹھائے دروازوں پہ انتظار میں رہتی ہے۔ ایسوں میں جرأت کہاں کہ وہ موروثی پارٹی بادشاہوں کے سامنے سوال کر سکیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے‘ جس نے عمران خان صاحب کے اقتدار کے راستوں کو ہموار کیا۔ ان خاندانوں کی سیاست کے خلاف خواص اور عوام نے اس بیانیے کی تائید کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی کپتان نے ان کے خلاف زبان اور لہجہ تبدیل نہیں کیا۔ وہ ایسا کیوں کریں گے‘ جب سیاسی طور پر اس سے فائدے میں رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے زبان ذرا پھسل گئی۔ شریف خاندان کی باہر دولت کے بارے میں الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان کے پوتے کیمبرج یونیورسٹی کی پولو ٹیم میں کھلاڑی ہیں‘ جس کے لیے رئیس ہونا ضروری ہے‘ کچھ بتائیں دولت کہاں سے آئی کہ یہ تو نوابوں اور بادشاہوں کا کھیل ہے‘ جس پر بے پناہ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ کپتان کا پوتے کا حوالہ دے کر شریفوں کی مبینہ کرپشن پر وار کرنا‘ اپنی بوسیدہ‘ متروک اخلاقیات کو سامنے رکھیں تو جائزیت کے خانے میں جگہ نہیں بنا پائے گا۔ ممکن ہے‘ جذبات کی رو میں بہہ گئے ہوں‘ مگر کلام میں بے احتیاطی ان کا پُرانا مسئلہ ہے۔ اس وقت وہ جس مقام پہ ہیں‘ یہ عہدہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
محترمہ مریم نواز نے تو تلخی میں حد ہی کر دی۔ ہمارے ہاں مخالف کی بات کو مسکرا کر یا ہنس کر کونے میں لگانے کی روایت ہی نہیں۔ مغرب کا منجھا ہوا سیاستدان ہوتا تو ٹال دیتا کہ مجھے میرے بیٹے پر فخر ہے۔ جوش اور طیش میں طعنہ ایسا دیا کہ بعض باتیں سن کر اور پڑھ کر میرا تو دل اداس ہو گیا۔ سوال ذہن میں ابھرا کہ یہ وہ قیادت ہے جو موروثی ہمارے ملک اور آنے والی نسلوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اورشہباز شریف‘ دونوں کی زبان ایسی کڑواہٹ کبھی نہیں دیکھی‘ شائستگی سے بات کرتے ہیں۔ یہ مزاج محترمہ کو ورثے میں تو نہیں ملا ہو سکتا کہ ان کے ارد گرد کے ماحول میں موجود مشورے دینے والے اور تقریریں لکھنے والے ایسی پرچیاں ان کے سامنے رکھتے ہوں‘ لیکن جو کچھ انہوں نے ارشاد فرمایا‘ وہ مناسب محسوس نہیں ہوتا ”میرے بچے یہودیوں کے گود میں نہیں پلتے‘‘ کا فقرہ اگر کوئی رہنما کسی مغربی ملک میں عام جلسہ تو کجا‘ کسی معمولی سی تقریب میں بھی کہہ دے تو اس دن اس کی سیاست کا چراغ گُل ہو جائے۔ ہمارے ہاں جو زبان ایک عرصہ سے کچھ روایتی حلقوں کے فورمز سے استعمال ہو رہی تھی‘ اب سیاست کے میدان میں بھی آ گئی ہے۔ ہمارے ہاں اسرائیل کی ریاست اور اس کے فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی سرزمین پر قبضے اور یہودیوں میں فرق نہیں کیا جاتا۔ یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ سب یہودی نہ تو اسرائیل کے قیام کے حق میں تھے‘ نہ اب ہیں‘ اور نہ وہاں کی حکومت کی طرف سے مظالم کی تائید کرتے ہیں‘ بلکہ یہودیوں کا ایک کٹر فرقہ کھلم کھلا اسرائیلی ریاست کی مخالفت کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب میں یہودی دانشوروں‘ فنکاروں اور ذاتی حیثیت اور آواز رکھنے والے افراد اور گروہوں نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی گروہوں کا زبانی کلامی ساتھ دیا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف کے طعنے میں نفرت کی بُو آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مغرب‘ تاریخ اور سیاست کا مطالعہ بس اتنا ہی ہے جو ان کے اس نوعیت کے افکار کے ذریعے ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیوں کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔
اس وقت کچھ یہودی اساتذہ اور دوست یاد آ رہے ہیں۔ دہائیوں سے ان کے ساتھ تعلق ہے۔ ویسے دوستیوں اور علمی رشتوں میں ہم مذہب کو پسِ پشت رکھتے ہیں۔ معلوم تو ضرور ہو جاتا ہے کہ کیسے میں اپنا مسلمان ہونا چھپا سکتا ہوں۔ ایک قریبی دوست ہیں‘ جو اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں اسلام آباد میں ایک سال قیام کیا تھا۔ آج تک پاکستانی ڈرائیور کی مدد کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ محترمہ یا انکے ساتھیوں کو کبھی باہر کے ملکوں میں پاکستان پہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ”تین پیالی چائے‘‘ (Three Cups of Tea by Greg Mortenson and David Oliver Relin) پڑھنے کی توفیق ہوئی ہوگی۔ اس میں لکھا ہے کہ کس طرح انہوں نے مالی اور جغرافیائی مشکلات کے باوجود بچوں کیلئے سکول بنائے‘ جن کیلئے ایک کلیدی شخص جس نے دل کھول کر چندہ دیا‘ وہ یہودی تھا۔ جمائمہ کو پہلے بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ شریفوں کی حکومت کے دوران ان پر پُرانی ٹائلیں باہر لے جانے کا مقدمہ بھی بنا تھا۔ انکے ساتھ عمران خان کے سیاسی مخالفین‘ جن میں کچھ نام نہاد ”روشن خیال‘‘ آزاد رو مردوخواتین کے نام بھی آتے ہیں‘ کا رویہ اخلاقی تو کجا تہذیب کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔ اب وہ یہاں سے رخصت ہو چکیں۔ چوٹ جہاں مقصود تھی‘ وہاں لگی نہیں۔ یہ فقرہ اب محترمہ کا پیچھا یہاں نہیں تو مغرب میں ضرور کرے گا‘ جو ان کی پناہ گاہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کہیں‘ نفرت‘ ناپختگی یا تعمیرِ شخصیت میں کجی بہت چھوٹی اور نامناسب بات ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر