حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان کی ابتر صورتحال کی بازگشت گزشتہ روز تاشقند میں منعقد ہونے والی ’’سنٹرل و جنوبی ایشیاء کانفرنس‘‘ میں بھی سنائی دی۔ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان سے 10ہزار جنگجووں کے آنے کا الزام لگایا۔ جواب میں وزیراعظم عمران خان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ’’ہماری کوئی پسندوناپسند نہیں البتہ طالبان اب خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے‘‘۔
ادھر افغانستان میں دو دن قبل صوبہ بامیان میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں کے بعد طالبان اپنے زیرقبضہ 2 اضلاع سے پسپا ہوگئے۔ بامیان صوبے کی حدود سے پسپا ہوتے طالبان جنگجو ہزارہ قبیلے کی مسافر خواتین کو ویگن سمیت اغواکرکے ہمراہ لے گئے۔ اس کارروائی سے مستقبل کا طالبانی منظرنامہ ’’واضح‘‘ نہ ہو تو بھی یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔
افغان جہاد کے ایک سابق جہادی مجاہد جواب صحافت سے منسلک ہیں نے اپنے حالیہ کالم میں تقریباً وہی باتیں کہیں جو گزشتہ دنوں پروفیسر جواد ایثار نے اپنے مضمون میں کی تھیں البتہ مجاہد کالم نگار نے اپنی تحریر کوسمیٹتے ہوئے حسب سابق خبث باطن کا مظاہرہ کرکے ثواب دارین سے دامن بھرلیا۔
چنددن قبل افغان طالبان کے ترجمان کا انٹرویو کرنے کی سعادت بھی انہیں حسب سابق فراہم کی گئی جیسے کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان احساناللہ احسان کا انٹرویو کرنے کی سعادت بخشی گئی تھی۔
سہیل شاہین(ترجمان افغان تحریک طالبان )کے انٹرویو پر پاکستانی پشتونوں کے ایک بڑے حلقے سمیت دیگر لوگوں نے بھی اعتراضات اٹھائے جواباً موصوف کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی سوات کے ساتھ اس وقت کی اے این پی حکومت کے ایک معاہدہ کو لے آئے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے دور میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی اور کمیٹی قائم کرنے کے سرکاری نوٹیفکیشن کا ذکر کیوں نہ کیا اور یہ بتانے کی زحمت کیوں نہ کی کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی تھی اس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی شامل تھے۔
تاشقند میں اشرف غنی کو جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ سر آنکھوں پر ہمیں ان کا بے حد احترام کیونکہ وہ وزیراعظم پاکستان ہیں البتہ ایک سوال ان کی خدمت میں رکھنا بھی ضروری ہے وہ یہ کہ اسپین بولدک میں طالبان جنگجووں اور افغان سکیورٹی فورسز میں جاری جنگ میں زخمی ہونے والے جنگجووں کا افغانستان سے ملحقہ سرحدی شہروں کے ہسپتالوں میں علاج کیوں کیا جارہا ہے ؟
کیا ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ افغانستان سے ملحقہ طویل سرحد کے اہم ترین مقامات پر جس طرح کی سخنی ہونا چاہیے تھی ویسی نہیں ہے۔
ہم اشرف غنی کو "کرارا "جواب دے کر وقتی طور پر تو سرخرو ہوگئے لیکن تاریخ کی جوابدہی کے عمل سے کیسے سرخرو کیسے ہوں گے؟
دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان میں 15 مئی کے بعد پیدا ہونے والی ابتری میں بہتری لانے اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے علاقائی تعاون کی خاطر امریکہ ازبکستان، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی اتحاد بنایا گیا ہے جو 15 جولائی کے بعد بنی صورتحال میں مثبت تبدیلیوں کے لئے کوششیں کرے گا۔
ہوسکتا ہے کہ یہ چار ملکی اتحاد کچھ کرپائے لیکن افغانستان اور پاکستان درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کی وجہ سے شاید ہی یہ اتحاد کچھ کرسکے۔
ہمارے پالیسی ساز نجانے اس بات کو کیوں نظرانداز کردیتے ہیں کہ طالبان اور بھارت کے درمیان اب تک چار سے زائد رابطے ہوچکے دو بار تو بھارتی وزیر خارجہ نے ان سے ملاقات کی۔ بھارتی وفد کی ایک ملاقات اشرف غنی کے مشیر قومی سلامتی کے تعاون و سہولت کاری سے ممکن ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملاقاتوں (بھارتی نمائندوں اور طالبان کی) کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ جو کہانی گھڑ رہے ہیں وہ عالمی ذرائع ابلاغ (یاد رہے میں بھارتی ذرائع ابلاغ نہیں لکھ رہا) سے مختلف ہیں۔
ان ملاقاتوں کے حوالے سے جون میں دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ "کوئی کسی سے بھی ملے ہو ہمارا مسئلہ نہیں‘‘۔
ویسے تاشقند میں جو الزامات اشرف غنی نے پاکستان پر لگائے یہ نئے نہیں دلچسپ ضرور ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل افغان طالبان بھی ہماری طرف اسی طرح کے الزامات اچھال چکے ہیں اور ہماری ریاست کی ایک پرانی ڈارلنگ گلبدین حکمت یار بھی ماضی میں زبان سے تلوار کا کام لیتے رہے۔
طالبان کی ’’فتوحات‘‘ کو جس طرح ہمارے ہاں پیش کیا اور سراہا جارہا ہے خود اس پر بہت سارے سوالات ہیں۔ وزیراعظم کے ارشادات سرآنکھوں پر ان سے درخواست ہے کہ وہ افغانستان سے ملحقہ سرحدوں پر سکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنوادیں تاکہ شرپسند عناصر اِدھر اُدھر منتقل نہ ہونے پائیں۔
دفتر خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ 17جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی افغان امن کانفرنس کو ملتوی کئے جانے پر چند سطری بیان کی بجائے ذرائع ابلاغ کو تفصیلی بریفنگ دے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ
’’ہم نے اسلام آباد سے افغان امن کانفرنس کے التواء کی درخواست نہیں کی‘‘۔
اس ضمن میں بعض ذرائع یہ کہہ رہے ہیں طالبان جنگجووں نے افغان حکومت کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل میں شریک ہونے سے انکار کا پیغام بھجوایا جس کے بعد کانفرنس ملتوی کی گئی۔
یہاں 6جون 2018ء کو افغانستان کے 2000سے زائد علمائے کرام کے اس فتوے کا بھی ذکر ضروری ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے افغانستان کو اسلامی ریاست قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کسی بھی قسم کے مسلح جہاد اور خودکش حملوں کو حرام قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ 16جنوری 2018ء کو پاکستان میں بھی 1800 علماء نے ایسا فتویٰ دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی علماء کے فتوے پر ڈھول پیٹتے ہوئے اسے اعلیٰ و ارفع تعلیمات کا نمونہ قرار دینے والے افغان علماء کے فتوے بارے کہتے ہیں وہ تو سرکاری پٹھو مولویوں نے دیا تھا اصل علما تو طالبان کے ساتھ ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں درست یا غلط اجتماعی کیوں نہیں انفرادی کیوں ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر