عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح گالی دینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے اس طرح مسلسل گالیاں کھانا بھی کوئی لائق تحسین بات نہیں۔ اس بات کو اب مسلم لیگ نون کے کارکنوں، قیادت اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے سمجھ لیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے واقعات صرف چند دن پہلے کے واقعات نہیں بلکہ ان کے ڈانڈے دور تک ملتے ہیں۔ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج کا نہیں ایک منصوبے کے تحت مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کو گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک جرم جو انہوں نے کیا ہی نہیں اس کی سزا سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سر عام دی گئی۔ ہر ظلم کا بہر حال خاتمہ ہوتا ہے، ہر زہریلی سازش کے خلاف کوئی تدبیر نکل آتی ہے۔ ہر خاموشی کبھی طوفان بن جاتی ہے۔ یہی اب ہو رہا ہے۔
وہ کارکن جو گزشتہ پانچ برسوں سے کرپٹ، ڈاکو، چور اور لٹیرے کے القابات سن کر شرمسار ہوتے تھے اب انہیں طیش آتا ہے۔ اب وہ گالی کے جواب میں گالی نکالنے کا ہنر جان گئے ہیں۔ اب وہ بہتان طرازی کا دندان شکن جواب دینے میں ماہر ہو گئے ہیں۔
مسلم لیگ کی قیادت پر مسلسل الزام لگانے والوں کو ایسا سبق پڑھایا گیا ہے کہ وہ کسی دلیل سے ماورا ہو گئے ہیں۔ نہ حقائق ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ دستاویزی ثبوت سے ان کی تشفی ہوتی ہے۔ وہ بس یہی آموختہ دہراتے رہتے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ کر لے گئے اس ملک کو۔ کچھ لوگوں کی کرپشن نے اس ملک کو تباہ کر دیا۔ یہ بات ان کے ذہنوں میں اتنی راسخ ہو گئی ہے کہ وہ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں، یہی ان کے نزدیک دلیری ہے یہی ان کے نزدیک جرات ہے۔
اب کوئی کس طرح اس نسل کو سمجھائے کہ نواز شریف اور ان کے رفقا پر کرپشن کی ایک پائی کا ثبوت نہیں ملا۔ وزیر اعظم ہاؤس کا خرچ نواز شریف اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ شہباز شریف نے کسی معاہدے میں کوئی کرپشن نہیں کی اس کے باوجود پنجاب کو ترقی کی بلندی پر پہنچا دیا۔ مریم نواز کا میڈیا سیل وزیر اعظم ہاؤس کے خرچ سے نہیں چلتا تھا۔ اس کو چند رضاکار چلاتے تھے۔ شاہد خاقان عباسی اپنی گاڑی خود چلا کر بطور وزیر اعظم دفتر جاتے تھے۔ سعد رفیق نے ریلوے کو زمین سے آسمان تک پہنچ دیا تھا۔ خواجہ آصف ایک بہترین وزیر خارجہ تھے جو امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ اسحاق ڈار نے اس گرتی پڑتی معیشت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ رانا ثنا اللہ نے کبھی تھانوں کو غیر قانونی کام کرنے کو نہیں کہا تھا۔ احسن اقبال ترقی پاکستان کے لیے اگلے پچیس سال کی پلاننگ کر رہے تھے۔ انوشے رحمان کے دور میں آئی ٹی کی وزارت میں کبھی کوئی اوپر سے فون نہیں آیا تھا۔
اسی دور میں پاکستان کو لوڈ شیڈنگ جیسی عفریت سے نجات ملی تھی، دہشت گردی کا عذاب ختم ہوا تھا۔ بلوچستان میں امن قائم ہوا تھا۔ علیحدگی پسند تحریکیں پاکستان کا جھنڈا لہرا رہی تھیں۔ لیکن یہ سب باتیں اس نسل پر ذرا بھی اثر نہیں کرتی جسے چور ڈاکو کی گردان رٹوا دی گئی ہے۔
اس کا سبب وہ پانچ سال ہیں جس میں ہر موقع پر مسلم لیگ نون پر الزامات لگائے گئے۔ سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈ بنوائے گئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر زرخرید اینکروں اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کے ذریعے زہر اگلا گیا۔ عمران خان کے ہر جلسے میں یہی گردان دہرائی گئی، ہر وزیر کو اسی بہتان طرازی کا ٹاسک ملا۔ ہر ٹاک شو میں یہی بات دہرائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جھوٹ اس تسلسل سے بولا گیا کہ اب بہت سے لوگ اسی کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ یہی ان کو تاریخ پاکستان لگنے لگی ہے۔ بات صرف یہ بتانی ہے کہ یہ تاریخ پاکستان نہیں مطالعہ پاکستان کو وہ نصاب ہے جو ہر دور میں سیاستدانوں کے خلاف مروج رہا۔ یہ سبق ہمیشہ عوام کو پڑھایا گیا۔ سیاسی کارکن کے جذبے کو ہمیشہ شرمسار کیا گیا۔ سیاسی قیادتوں کو ہمیشہ بدنام کیا گیا۔ ہمیشہ ایسے بے بنیاد الزامات لگا کر خفیہ ہاتھوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
جو کچھ لندن کے ایک ریسٹورانٹ میں نواز شریف فیملی کے ساتھ ہوا اور جس طرح عابد شیر علی کا رد عمل سامنے آیا، جو کچھ خرم گنڈا پور کے ساتھ کشمیر میں ہوا اور جس طرح ان کا ردعمل سامنے آیا۔ یہ اب احتجاج کی ایک نئی قسم ہے جس سے پہلے مسلم لیگ نون کا کارکن واقف نہیں تھا۔ پہلے یہی کارکن ان الزامات پر چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا۔ شرافت کے مارے گالی کا جواب گالی سے اور گولی کا جواب گولی سے نہیں دیتا تھا۔ اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب کارکن ان الزامات پر مشتعل ہوتے ہیں۔ رد عمل دکھاتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ گالی کا جواب گالی سے دیتے ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق آنے والے دنوں میں تصادم کی اس صورت حال میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس لیے کہ بنیادی طور پر گولی اور گالی فرسٹریشن کی علامت ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے نواز شریف اور ان کے رفقا کی بارے میں یہ قبیح منصوبہ بنایا تھا اب ان کی فرسٹریشن عروج پر ہے۔ گالی برگیڈ تخلیق کرنے والے یہ سمجھتے تھے کہ مسلسل بہتان طرازی سے یہ جماعت ٹوٹ جائے گی، کارکن بدل ہو جائیں گے، قریبی ساتھی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ جماعت ٹوٹی، نہ کارکنوں کا حوصلہ۔ سب زہریلے منصوبے غارت ہو گئے۔ اب بھی لوگ نواز شریف کے بیانیے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب بھی مریم نواز کے جلسوں میں لوگ ایک اشارے پر ہم آواز ہوتے ہیں۔ اب بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اگر ترقی ہوئی ہے تو نواز شریف کے دور میں ہوئی ہے۔ یہ صورت حال تو منصوبہ سازوں نے سوچی نہیں تھی۔
اصل مسئلہ نہ گالی کا ہے نہ گولی کا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام نفرت کی اس سیاست کے اصل تخلیق کاروں کو پہچان گئے ہیں۔ گالی برگیڈ کے موجدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ اب ایک طرف سے کرپشن کا نعرہ لگتا تو دوسری طرف سے بھی عاصم باجوہ کی طرف ”رسیداں کڈو“ کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ اب مودی کے یار کا نعرہ لگتا ہے تو مودی کو ”مس کالیں“ مارنے والے وزیر اعظم کا نام لبوں پر آ جاتا ہے۔
جھوٹ کے بیوپاریوں کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ لوگوں کو ایک حد تک دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اس حد کو پار کریں گے تو آپ کی پارسائی پر بھی چھینٹے پڑیں گے اور آپ کے عزت اور وقار کے جھوٹ لبادے بھی داغدار ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر