حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پشاور کے بعد گزشتہ روز کوئٹہ میں بھی افغان طالبان کے جھنڈے اٹھائے ایک بڑے گروپ نے جلوس نکالا۔ سوال بہت سادہ ہے۔ ہم چاہ کیا رہے ہیں کیا طالبانائزیشن کے ہاتھوں جو گہرے گھائو پچھلے 25 سال کے دوران ہمیں لگے انہیں بھلا دیا جائے۔ یا یہ کہ طالبانیت کا شکار ہوکر قبرستانوں میں آرام کرتے اپنے پیاروں کو آئندہ ہمیں شہید کی بجائے ہلاک کہنا لکھنا ہے اور یہ سمجھنا ہے کہ مجاہدین اسلام کے جہاد کی زد میں آکر جو مارے گئے وہ بس مارے ہی گئے؟
ریاست کی پالیسی تو اندھوں کو بھی سمجھ میں آرہی ہے۔ یہاں وہ لوگ بھی افغانستان میں اسلامی انقلاب چاہتے ہیں کہ اگر اس انقلاب کے چھینٹے بھی پاکستان پر پڑے تو وہ سب سے پہلے بھاگ نکلنے والے ہوں گے۔
ہمارے ہاں ایک بات عموماً کی جاتی ہے
’’پیدا پاکستان میں ہوئے، زندگی یورپ میں بسر کرنا چاہتے ہیں اور قبر مکہ و مدینہ میں‘‘۔
چار اور اسی طرح کی سوچ کے حاملین موجود ہیں۔ ان دیسی بدووں پر حیرانی ہوتی ہے جو مقیم امریکہ و یورپ میں ہیں اور ہمیں فضائل طالبان سمجھارہے ہیں، ہمت کیجئے۔ یورپ کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر خاندان سمیت افغان طالبان کے زیراثر علاقوں میں جابسیئے لگ پتہ جائے گا۔
اولین بات پھر سے کرتے ہیں پشاور میں طالبان کے حق میں مظاہرہ ہوا ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی۔ جن کی نعشیں افغانستان سے لائی گئیں ان مرنے والوں کے ورثا اور انہیں افغانستان لے جانے والوں سے پوچھ گچھ کو کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔
گزشتہ روز کوئٹہ میں مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین کون تھے، افغان مہاجر یا مقامی؟ جو بھی تھے انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی۔
24گھنٹے گزرگئے ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہوا۔ ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ سب انتظامیہ کے تعاون سے ہوا۔ کیا انتظامیہ ریاست کی مرضی کے بغیر کچھ کہتی سوچتی اور کرتی ہے؟
جس افغان پالیسی میں 40برسوں سے ہماری گردنیں پھنسوائی گئی ہیں اس کا حاصل وصول کیا ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں (شاہ محمود قریشی سمیت) کہ طالبان اب بدل چکے وہ پہلے جیسے نہیں۔ انہیں وکیل صفائی اور ترجمان کس نے مقرر کیا؟
وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے علم میں نہیں کہ ہم گرے لسٹ میں کھڑے ہیں۔ طالبانیت کی ہمنوائی، ترجمانی اور صفائی کے ساتھ حمایت میں نکلنے والے جلوس ان سب کو ہمارے مخالفین ایف اے ٹی ایف میں ہمارے خلاف استعمال کریں گے؟
وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے ایک امن کانفرنس کی میزبانی کا عندیہ دیا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ حامد کرزئی، موجودہ افغان صدر اشرف غنی کے نمائندہ خصوصی اورایک سابق وزیر خزانہ سمیت متعدد افغان رہنماوں نےشرکت کی حامی بھری اور تصدیق بھی کی۔ اچھی بات ہے۔
ان سطور میں قبل ازیں عرض کرچکا کہ افغان عمل کو آگے بڑھانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ بدامنی اور بارود کی بُو سرحد پار نہ گرنے پائے لیکن کیا جس طرح ہمارا ذرائع ابلاغ، حکومت کے بعض ذمہ داران اور ایک خاص فہم کے لوگ بڑھکیں مارنے میں مصروف ہیں ان حالات میں افغان عمل کے سارے فریق ہماری دعوت پر جمع ہوں گے؟
کم از کم مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو ہاں ہم مختلف الخیال افغان پشتونوں کو شاید جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو یہ ہمارے موجودہ رویوں اور ’’ہاوہو‘‘ سے زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ طالبان پر افغان عوام کا اجماع نہیں ہے۔
یہ باریک سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
افغان عمل کو آگے بڑھانے کے لئے افغان سرزمین کے فریقین کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہاں ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے چند روز قبل چیلاس میں منعقد ہونے والے طالبانی جرگے سے چشم پوشی کی۔ نتیجہ کیا نکلا، داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو پیش آنے والا ’’حادثہ‘‘ ہم کہتے رہے کہ حادثہ گیس لیکیج سے ہوا بس نالے میں جاگری، 9چینی اور 4مقامی افراد جاں بحق ہوئے۔ لیکن چینی اور عالمی ذرائع ابلاغ اس حادثے کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ چین نے باضابطہ طور پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی علاقے میں چند دن قبل مفرور طالبان کمانڈر حبیب الرحمن کی سربراہی میں جرگہ ہوا تھا۔ تادمِ تحریر اس غیرقانونی مسلح جرگہ کے انعقاد کے حوالے سے کسی بھی سطح پر انکوائری کا حکم آیا نہ مفروروں کے اجتماع پر ایف آئی آر درج ہوئی۔
ادھر طالبان اور افغان حکومت الگ الگ بلکہ یوں کہیں کہ اپنے اپنے حساب سے دعووں میں مصروف ہیں۔
جنگجو کہتے ہیں ہم نے اسپین بولدک کے سرحدی مقام پر قبضہ کرلیا ہے۔ افغان حکومت کہہ رہی ہے کہ حملہ پسپا کردیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں معاملہ صرف دعووں اور جوابی دعوئوں کا نہیں معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں طالبان کو نجات دہندہ بناکر پیش کرنے والے کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں؟
معاف کیجئے گا جو حکومت کالعدم تنظیموں کے ارکان کی چندہ مہم کو نہ روک سکتی ہو اور وہ دھڑلے سے خودساختہ مجاہدین کے لئے چندہ جمع کرنے کے ساتھ جہاد اسلامی کے لئے قربانی کی کھالیں پکی کررہے ہوں تو لوگوں کی حیرانی بجا ہے۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ حالات جس طرف جارہے ہیں اور جس طرح کی نیم دروں اور نیم بروں ہماری ریاستی پالیسی اور رہنمائوں کی سوچ ہے، یہ خطرات کو بڑھانے میں معاون بنے گی۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ ہمیں افغانستان کے داخلی مسائل اور اختلافات میں فریق بننے کی ضرورت نہیں ثانیاً یہ کہ طالبانائزیشن کی ہمنوائیوں کا بھی نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔
ہمیں اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہوگا۔ کسی بھی حال میں نئے مہاجرین قبول نہیں کرنے چاہئیں۔ پہلے بھی ہم مہمان نوازی میں بہت ’’محبتیں‘‘ جھیل چکے۔
آخری بات یہ ہے کہ ہماری پالیسی افغانستان کے لئے ہونی چاہیے صرف پشتون افغانوں کے لئے نہیں۔ ماضی کی پشتون ولی پر مبنی افغان پالیسی کے نتائج کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ حیرانی ہوتی ہے امریکہ اور یورپ کے منافقانہ طرزعمل اور پالیسیوں پر، اس سے زیادہ حیرانی اپنے بڑبولوں پر ہورہی ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ان خطرات سے محفوظ رہا جاسکے جو تیزی سے ہماری طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر