حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گدھا گاڑی سڑک پہ جا رہی ہے، کچھ سامان لدا ہوا ہے، اس پہ بہت سے بچے بیٹھے ہیں۔
ان کے امی ابو بھی ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں (ایک عورت اور مرد اگر بچوں کے ساتھ ہیں تو وہ اور کیا لگیں گے؟ ) بچوں نے جو کپڑے پہنے ہیں وہ نیلے پیلے لال پتہ نہیں کتنے رنگوں کے ہیں۔ گدھا گاڑی کے ساتھ ایک کتا، دو تین بھیڑیں اور کچھ بکریاں بھی تیز تیز قدم اٹھاتے چل رہے ہیں۔ جو بھی جانور ادھر ادھر ہوتا ہے کتا اسے ہشکاتے ہوئے سیدھی راہ پہ لگا دیتا ہے۔ یہ لوگ شاید خانہ بدوش ہیں۔
گدھا گاڑی کے ساتھ سڑک پر بہت سی گاڑیاں گزر رہی ہیں، نئی، چمکیلی، چمچماتی ہوئی گاڑیاں، کبھی کبھی پرانی گاڑی بھی کوئی گزر جاتی ہے۔ شدید والی گرمیوں کے دن ہیں، سب گاڑیوں کے شیشے بند ہیں، اندر اے سی چالو ہیں اور گدھا گاڑی جو ہے، وہ آہستہ آہستہ چلتی جا رہی ہے۔ سب بچوں کے ہاتھ میں ایک ایک قلفی ہے جو وہ بہت ماہرانہ انداز میں کھا رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں جو چمک اس لمحے موجود ہے وہ انہیں اور کچھ بھی نہیں سوچنے دے رہی، سوائے اس بات کے، کہ یہ قلفی دیر سے کیسے ختم ہو گی؟ ان کے ماں باپ کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیائی محسوس ہوتی ہیں، وہ کہیں دور دیکھ رہے ہیں، شاید اگلی منزل کی طرف۔
یہ تصویر اس لیے نہیں بن پائی کہ دو ڈھائی سال پہلے اس وقت ابا گاڑی چلا رہے تھے اور موبائل ریڈی کرنے کا وقت نہیں تھا۔ یا تو منظر دیکھ لیا جاتا، یا ہمیشہ کی طرح ہبڑ دبڑ مچا کے نہ انہیں دیکھ پاتا، نہ فوٹو کھنچتی۔ تو بس یہ ہو گیا۔
ایک آدمی روٹی لینے گیا ہے۔ تندور پہ فل رش مچا ہوا ہے۔ ایک بچہ جو ’چھوٹا‘ ہے وہ چارپائی پہ بیٹھا سکول میں دیا گیا کوئی سبق یاد کر رہا ہے۔ پتہ نہیں مالک کی نظروں سے چوک کیسے گیا، یا اسے اجازت ہے، خیر، مالک آواز دیتا ہے اور بچہ تندور پہ آ جاتا ہے۔ وہ گاڑی میں آنے والے گاہکوں سے پوچھ کے ان کو مطلوبہ تعداد میں روٹیاں پیک کر کے دے رہا ہے۔ تو وہ جو آدمی گاڑی میں آیا تھا، وہ اسے دیکھ رہا ہے کہ وہ کیسے برے موڈ سے اٹھا ہے۔ بچہ اس کے پاس آتا ہے۔ اسے آٹھ روٹیوں کا آرڈر دیا جاتا ہے۔ وہ جاکے روٹیاں نکلواتا ہے، تھیلا بنا کے لا دیتا ہے۔ گاڑی والا اسے ایک سو روپے کا نوٹ الگ سے دیتا ہے کہ بیٹے یہ تم رکھ لو۔ وہ بچہ ایسے واپس جا رہا ہے جیسے لاٹری لگ گئی ہے۔ اس کے چہرے پہ جو بے یقینی ہے وہ تصویر لفظ نہیں بنا سکتے۔ آدمی ویسے بھی کوئی پروفیشنل فلنتھروپسٹ نہیں تھا جو بیواؤں کو سلائی مشین دے کے فوٹو کھینچ لیتے ہیں، تو اس نے یہ واقعہ سادہ سے لفظوں میں سنا دیا۔
بچپن میں جفی نے ائر گن لی۔ وہ مجھ سے ایک سال بڑا ہے۔ ایک نمبر کا وہی آدمی ہے جو یہاں نہیں لکھ سکتے۔ اپنا دوست یار ہے، کزن بھی ہے، تو اس وقت وہ جفی بھائی ہوتا تھا۔ وہ ڈائنا کی ائر گن تھی۔ جفی پتہ نہیں اس سے کیا کیا نشانے بازیاں کرتا، ہم دونوں بھائی بھی وہاں جاتے تو بڑے مزے کرتے۔ کہاں پانچ چھروں کے لیے پٹھان کو ایک روپیہ دینا پڑتا تھا کہاں اپنے گھر کی ائر گن، تو وہ موج ہی لگ گئی۔ ابا سے کہا ائر گن دلائیں۔ کافی طویل مطالبے کے بعد ایک دن وہ ساتھ لے کر گئے اور چھروں والی بندوق گھر میں آ گئی۔
اپنے کھلونے، ڈنکیاں (چھوٹی گاڑی کا ماڈل) ، لوہے کے پائپ، لوگوں کے روشن دان، پانی والی بالٹی ہر چیز پہ نشانہ پکایا گیا۔ کام بہتر ہو گیا۔ ایک دن بندوق ہاتھ میں تھی۔ صحن میں سامنے امرود کا درخت تھا۔ اس کے اوپر ایک چڑیا بیٹھی تھی۔ پتہ نہیں کیا منحوس لمحہ تھا۔ اس کی طرف بندوق سیدھی کی اور نشانہ لگا دیا۔ یار وہ لگ بھی گیا۔ چڑیا نیچے آ کے گر گئی۔ اس کا دل شدید تیز دھڑک رہا تھا۔ خون بھی گردن کے پاس سے بہہ رہا تھا اور آنکھیں پانچ سیکنڈ بعد موندی گئیں۔ اس وقت ریل والا کیمرا تو ویسے نہیں تھا، ڈیجیٹل کیمرا ہوتا نہیں تھا، وہ تصویر دماغ پہ بن گئی۔ اس قدر ندامت، ایسی شرمندگی، افسوس، دکھ، پریشانی پتہ نہیں کیا کیا ہوا کہ آج تک وہ آنکھیں، بند ہوتی ہوئی آنکھیں، وہ نہیں بھولتیں۔ اگر اپنے یہاں بھی کنفیشن کا رواج ہوتا تو پادری لوگ پک جاتے یہی واقعہ سن سن کے۔ خدا معاف کرنے والا ہے۔
رات کا وقت ہے۔ ایک گاڑی کی پچھلی سیٹ ہے۔ اس پہ دو کردار بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کسی بھی ڈرامے یا فلم میں ہوتے ہیں۔ تو اس میں جو ہیروئن ہے وہ آرام سے ہنستے مسکراتے ہوئے بات کر رہی ہے۔ کوئی بھی بات، نارمل بات، عام سی بات، جیسے ہم آپ کرتے ہیں۔ ہیرو جو ہے وہ ایک دم سن بیٹھا ہوا اس کے چہرے کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کسی بات کا جواب نہیں دے رہا۔ کچھ دیر بعد وہ نوٹس کرتی ہے تو پوچھ لیتی ہے کہ بھئی کیا بات ہے، میں بات کرتی ہوں اور تم خاموشی سے دیکھے جا رہے ہو۔ وہ کوئی جواب نہیں دیتا، اسے خود معلوم نہیں کہ اس نے جواب کیا دینا ہے۔
اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ باہر سے جو بھی روشنی اندر آتی ہے وہ اس کے چہرے کی دائیں طرف پڑ رہی ہے۔ تو چوں کہ اندھیرا ہے اس لیے چلتی گاڑی میں وہ روشنی جب بھی کہیں سے آ کے جھانکتی ہے، چہرے کا نیا اینگل دکھاتی ہے۔ پھر کبھی کسی نیون سائن کی نیلی یا گلابی روشنی بھی آ جاتی ہے، وہ ایک الگ ایفیکٹ دے رہی ہے۔ تو ہیرو غریب خود سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور جو دیکھ رہا ہے وہ بتایا کیسے جائے۔ تصویر تو بنائی ہی نہیں جا سکتی کہ اندھیرا ہے اور چلتی گاڑی میں کیا خاک آنی ہے۔ تو وہ اس ان کھنچی تصویر کو ایک کیپشن دے دیتا ہے، تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ۔ (رقیب سے۔ فیض) اور ٹھنڈا ہو کے ایک ریڑھی پہ گاڑی روکتا ہے، گول گپوں کا آرڈر دے دیتا ہے۔
میں آئلہ سے باتیں کر رہا ہوں، اس کی ماں بھی بیٹھی ہوئی ہیں۔ فیملی ٹائم چل رہا ہے۔ وہ سکول کے قصے سنا رہی ہے۔ ایسے پرلطف طریقے سے کہ جیسے اب بھی اس کا بس چلے تو سکول میں ہی ہو۔ سب کچھ سن کے مجھے اپنا بچپن یاد آ رہا ہے۔ میں کمپیئر کر رہا ہوں کہ ہم لوگ سکول کے نام سے چڑ کھاتے تھے، بھاگتے تھے کہ یار کیا مصیبت ہے، زندگی میں ایک یہ دکھ نہ ہو تو کیسی عیاشی ہو لیکن آج کل کے بچوں کے پاس واحد تفریح یہی رہ گئی ہے۔ وہ نہ گلیوں میں کھلے عام کھیل سکتے ہیں، نہ دور پار رشتے داروں کے پاس اکیلے بھیجا جاتا ہے، دادی دادا ویسے دور ہیں، تو بچے گھروں میں کریں بھی کیا۔ خیر، موضوع بدلتا ہے، کچھ اور باتیں ہوتی ہیں۔ پھر آئلہ کی ماں اٹھ کے باہر کسی کام سے جاتی ہیں تو میں آئلہ سے پوچھتا ہوں، یار آئلہ، تم بابا کو کیا سمجھتی ہو، ایک مڈل کلاسیا قسم کا آدمی، ایک عام سا پوئیٹ، ایک نارمل سا رائٹر، ایک سنکی بندہ، ایک کیئر فری انسان، کیا لفظ بابا کو ٹھیک سے ڈیفائن کرے گا۔
آئلہ سر جھکائے ہوئے کمپیوٹر پہ کچھ کر رہی ہے۔ بہت دیر وہ جواب نہیں دیتی تو میں اس کی طرف جھک کے پوچھتا ہوں۔ وہ میری طرف نہیں دیکھتی، کی بورڈ پہ دو تین آنسو نظر آتے ہیں۔ میں اس کی سرخ آنکھیں تصویر میں نہیں لانا چاہتا۔ بیٹیاں ہنستے اچھی لگتی ہیں۔ پتہ نہیں کیا پاگل پن تھا، چھوٹے بچے سوالوں کے جواب میں اچانک بڑے کیوں ہو جاتے ہیں یار؟
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر