ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہاولپور سے ن لیگ کے ممبرقومی اسمبلی میاں نجیب الدین اویسی نے کہا ہے کہ ہم سرائیکی صوبے کے مخالف نہیں مگر ہمارا اپنا صوبہ بہاولپور صوبہ بحال ہونا چاہیے۔عجیب بات ہے کہ بہاولپور جب صوبہ ہی نہیں تھا تو بحالی کیسی ؟ بہاولپور صوبے کے موضوع پر آگے چل کر معروضات پیش کروں گا مگر اس سے پہلے میاں نجیب الدین اویسی کی طرف سے ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک تحریر میں پھیلائی گئی غلط فہمی کے بارے میں معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
میاں صاحب لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بڑے جہاں دیدہ سیاستدان تھے، انہوں نے 73کے آئین میں نئے صوبوں کے لیے آئین میں ایسی گرہ لگا دی کہ نئے صوبے بننے نا ممکن حد تک مشکل ہو گئے ۔میاں نجیب الدین اویسی کو 1973ء کے آئین کامطالعہ کرنا چاہیے اس میں نئے صوبے کا سادہ طریقہ موجود ہے ، جس کے مطابق دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایوان زیریں اور ایوان بالا کی منظوری کے بعد نیا صوبہ وجود میں آتا ہے ۔
یہ گرہ آٹھویں ترمیم کے موقع پر ضیاء الحق نے لگائی کہ جس صوبے سے نیا صوبہ بننا ہو اس متعلقہ صوبے کی دو تہائی اکثریت بھی ضروری ہے ۔حالانکہ صوبہ آئینی معاملہ ہے اور صوبائی اسمبلی آئین ساز ادارہ نہیں ہے ۔ آٹھویں ترمیم کے موقع پر بدنیتی کی بنیاد پر یہ شق شامل کرائی گئی مگر اس سے بڑھ کر بدیانتی یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے موقع پر جب رضا ربانی کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیٹی میں ضیاء الحق اور مشرف کی دیگر آمرانہ ترمیمیں ختم کیں تو اس ترمیم کو کیوں باقی رہنے دیا گیا۔
اس پر وسیب میں احتجاج بھی ہوا مگر سنی ان سنی کر د ی گئی ،اب بھی وقت ہے کہ میاں نجیب الدین اویسی اسمبلی میں اس شق کی تبدیلی کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں ۔ اب ہم آتے ہیں بہاولپور صوبہ بحالی کے موزوں کی طرف یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بہاولپور صوبے کی بحالی کے نام پر غلط فہمی کا ایک طوفان مسلسل اٹھایا جا رہاہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا ، قیام پاکستان سے لے کر ون یونٹ کے قیام تک نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اختیارات استعمال کئے ، اس دوران 1952ء میں ریاست بہاولپور نے ایک عبوری ایکٹ منظور کیا،
اس میں بھی لفظ صوبہ نہیں ریاست استعمال ہوا اور ریاست کا سربراہ نواب آف بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی کو لکھا گیا ۔ عبوری ایکٹ کے نتیجے میں ریاست کی اسمبلی وجود میں آئی اور ریاستی اسمبلی پر مشتمل جو کابینہ بنائی گئی اُس میں مخدوم زادہ حسن محمود وزیر اعظم بنے ۔وزیر اعلیٰ یا گورنر کوئی نہیں تھا ،اگر صوبہ ہوتا تو اس کاگورنر ہوتا ۔و ن یونٹ بنایا گیا تو بہاولپور بھی صوبہ مغربی پاکستان کا حصہ بن گیا جب ون یونٹ ختم ہواتو بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنایا گیا جس کے رِ دعمل میں تحریک چلی۔1970ء کے الیکشن میں تحریک کے لوگوں کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ،
اس کے باوجود مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا جس کے ردِ عمل میں بہاولپور صوبہ تحریک کے اکابرین نے بہاولپور صوبہ تحریک کو سرائیکی صوبہ تحریک میں تبدیل کیا ۔ تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے محمد علی درانی وارد ہوئے اور ایک بار پھر بہاولپور صوبے کانعرہ لگایا ۔اُن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اُن کو ایجنڈا دے کر بہاولپور بھیجا گیا تھا، اس سے غلط فہمی کا ایک ایسا طوفان اٹھا جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں ،
صوبہ کوئی اتنی معمولی چیز نہیں کہ کسی سرکا ری دستاویز میں اس کا ریکارڈ نظر نہ آئے،اگر کسی جگہ کسی کے نام ایک مرلہ بھی ہے تو سرکاری کاغذات میں اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔عجب بات نہیں کہ ایک صوبہ ہواور اس کا آئین کی کسی کتاب میں ذکر نہ ہو اور نہ ہی بحیثیت صوبہ کوئی سرکاری ریکارڈ ملتا ہو۔ اب 21ویں صدی ہے لوگ سمجھدار ہو چکے ہیں لوگوں کو بے وقوف بنانے کی پریکٹس ختم ہونی چاہیے ۔
یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی شخص کہیں سے بھی کسی بھی نام سے نئے صوبے کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔مگر حقائق کے برعکس بات نہیں ہونی چاہیے۔اب بہاولپور صوبے کا مطالبہ صرف اور صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو صوبے کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں ۔
میاں نجیب الدین اویسی کی بذات خود یہ بات غلط ہے کہ ہم سرائیکی صوبے کے مخالف نہیں لیکن ہمارا بہاولپور صوبہ بحال ہونا چاہیے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہاولپور الگ ہے اور سرائیکی الگ ، حالانکہ بہاولپور وسیب کا مرکز ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بہاولپور نے ملتان سے جنم لیا ۔تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ملتان بہاولپور اور تمام وسیب ایک ہی تہذیب و ثقافت کا نام ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میاں نجیب الدین اویسی نے مردم شماری اور نادرا کے فارم میں خود کو سرائیکی لکھا تو اب وہ کیونکر یہ کہتے ہیں کہ سرائیکی الگ اور بہاولپور الگ ہے ؟میاں نجیب الدین اویسی آئین ساز ادارے کے رکن ہیں اُن کو تمام آئینی دستاویزات کا مطالعہ کرنا چاہیے ، اگر کسی بھی آئینی دستاویز میں بہاولپور بحیثیت صوبہ نظر آئے تو ہمارے علم میں اضافہ کریں ۔میاں نجیب الدین اویسی ن لیگ کا حصہ ہیں اور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ 88کے الیکشن میں میاں نواز شریف نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا ، دیواروں پر وال چاکنگ اور پوسٹر بازی اتنی ہوئی کہ یہ نعرہ پنجاب کے عوام کے دل میں گھر کر گیا اور میاں نواز شریف کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
میاں نجیب الدین اویسی کو میاں نواز شریف کی طرف سے لگایا گیا نعرہ آج بھی پسند آ رہا ہے مگر وسیب کے لوگ اپنے حقوق کی بات کریں تو اس پر حرف زنی کی جاتی ہے ۔میاں صاحب یہ بھی کہتے ہیں مسلم لیگ ن پنجاب کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے ، کوئی بھی جاگیردار اپنی ذاتی جاگیر سے ایک قطعہ سے بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔میاں نجیب اویسی آئین ساز ادارے کے رکن ہیں اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتا اور صوبے کا مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر