وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر ہو کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر۔ دونوں جگہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ ایک کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت پر لازم ہے کہ وہ بھارتی آئین کی بالادستی تسلیم کرے۔
دوسرے کشمیر میں صرف وہی سیاسی جماعت انتخابی عمل میں حصہ لے سکتی ہے جو کشمیر سے پاکستان کے الحاق کے نظریے کو تسلیم کرے۔ ایک متحدہ آزاد جموں و کشمیر ریاست کا نعرہ لگانے والی جماعتوں کی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے انتخابی عمل میں کوئی جگہ نہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حریت کانفرنس کے اتحاد میں شامل تنظیمیں ویسے بھی انتخابی عمل کو ایک مسلط نظام سمجھ کر پولنگ میں حصہ نہیں لیتیں۔جبکہ پاکستان میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کے لیے اسپیس نہ پیدا ہونے پائے۔اس امر کا خاص اہتمام ہمیشہ سے ہے ۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پانچ اگست دو ہزار انیس کے اقدامات سے پہلے تک ہند نواز ہی سہی مگر مقامی کشمیری قیادت پر مشتمل نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور دیگر جماعتیں یا ان کا اتحاد برسرِ اقتدار آتا رہا ۔
بھارت کے مرکزی دھارے میں شامل کانگریس اور بی جے پی جیسی جماعتیں کبھی بھی جموں و کشمیر میں اپنے بل بوتے پر مقامی جماعتوں کی مدد کے بغیر برسرِ اقتدار نہیں رہیں۔حتی کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں بھی مقامی خمیر کی نمائندہ علاقائی جماعتوں کے اتحاد کو برتری حاصل رہی۔
جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اگرچہ ایک عرصے تک پاکستان نواز مقامی مسلم کانفرنس مسلسل اقتدار میں رہی ۔لیکن نوے کی دہائی سے یہ تبدیلی آئی کہ پاکستان کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل جماعتوں نے مقامی قیادت پر مشتمل تنظیموں کی جگہ لینی شروع کر دی اور پھر یہ نظیر مستحکم ہوتی چلی گئی کہ جو جماعت اسلام آباد میں برسرِ اقتدار ہو گی وہی کشمیر میں بھی حکومت بنائے گی۔
اس رجحان کے پنپنے کے ساتھ ہی یہ سوال بھی بے معنی ہوتا چلا گیا کہ انتخابی عمل کس قدر مقامی امنگوں کا نمائندہ یا شفاف و غیر شفاف ہے؟
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مالیاتی شہہ رگ ہمیشہ سے دلی کے کنٹرول میں رہتی ہے اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا بجٹ بھی اسلام آباد میں براجمان مرکزی بیورو کریسی کے آگے کاسہ بہ دست رہتا ہے۔دونوں کشمیروں کی بابت اہم فیصلے بھی سری نگر یا مظفر آباد میں نہیں ہوتے۔ چنانچہ دونوں طرف کی مقامی قیادت کی بھی دو رہائشیں ہیں۔سری نگر اور دلی اور مظفر آباد اور اسلام آباد پنڈی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو برس پہلے تک اختیاراتی برگر کی تین تہیں تھیں۔سب سے نیچے منتخب ریاستی حکومت ، اس کے اوپر مرکزی حکومت کا نمائندہ ایک با اختیار گورنر اور اس سے اوپر مقامی عسکری و انٹیلیجنس نیٹ ورک۔ آج اس برگر کی دو تہیں باقی ہیں ۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے اختیاراتی برگر میں بھی سب سے نیچے منتخب مقامی حکومت ، اس کے اوپر پاکستانی وزیرِ اعظم کی سربراہی میں قائم با اختیار کشمیر کونسل اور ان سب کے اوپر عسکری و انٹیلیجنس سپر اسٹرکچر۔
اس پس منظر میں آج جب آزاد کشمیر میں جاری انتخابی چھینا جھپٹی پر نگاہ کی جائے تو ایک تماشا دیکھنے کا ملتا ہے۔ووٹر کشمیری ہے مگر ووٹ کی طلب گار تینوں بڑی جماعتیں غیر کشمیری۔ہر رہنما کی تقریر کشمیر کی آزادی سے متعلق عزم و قربانی کے رسمی جملوں سے شروع ہوتی ہے اور پھر نواز شریف کی یہ ، عمران خان کی وہ ، بھٹو خاندان کی فلاں ۔۔۔
یہ تقاریر سننے کے بعد عام ووٹر کو یوں لگتا ہے کہ انتخابی مہم سیاستدان نہیں بلکہ چور اچکے ڈاکو ، چچھورے لفنگے چلا رہے ہیں۔ یہ سرکس بھی پچیس جولائی کی شام تک لپٹ جائے گا اور اگلی صبح سے پھر کوویڈ سے بچنے کے لئے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کا بھاشن شروع ہو جائے گا۔
بشکریہ: ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر