ایک_چپ_ہے_جو_نگلتی_جارہی_ہے_شہر_کو
لیکن_اس_پر_بولتا_تو_بھی_نہیں_میں_بھی_نہیں
تحریر : ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پور شریف
اہلیان ضلع ڈیرہ غازی خان و ضلع راجن پور 34 افراد بے موت لقمہ اجل 40 سے زائد زخمی حسب سابق خاموش رہیئے گا کہیں چپ کاروزہ ٹوٹ نہ جائے
کیونکہ ہر آئے روز اس قاتل خونی سنگل انڈس ہائی وے کشمور ، راجن پور تا ڈی جی خان ،رمک اٹھتے لاشے آج قیامت صغری کامنظر تڑپتے لاشے کٹے پھٹے جسم ،سسکیاں اور آہیں جو کہ حاکم وقت کے کانوں تک پہنچنے سے
شاید قاصر ہیں .20 سے 40 سال کےجوان صرف روزی روٹی کیخاطر پنجاب کے بڑے شہروں میں اپنوں سےدور اپنے علاقوں میں روزگار کے بہتر وسائل میسر نہ ہونے کے سبب مجبور آج بس حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے آج کئی بہنوں کے بھائی کئی سہاگنوں کے سر کے سائیں
،کئی مائوں کے راج دلارے،جگر کے ٹکڑے،کئی بیٹیوں اور بیٹوں کے خواب،آس امیدیں،خوشیاں رونقیں،کئی باپوں کے سہارے،کئی خاندانوں کے واحد کفیل،اور درجنوں اپاہج ہونے والے حسرت و یاس پریشانی و مجبوری ولاچاری اور بے بسی کی تصویر بنے لاش نما زندہ چہرے آپ سے شاید کہہ رہے ہوں کہ کس کوقاتل کہیں کس کومقتول کہیں
شاید ہم ہی ہیں دونوں چپ ہی رہنا کہیں آواز نہ اٹھانا کہ ہم ہیں ہی اس قابل ہم نے ہی ہے لٹنا ہمارا ہی نصیب ہے بربادی ہم ہی ہیں کیڑوں مکوڑوں سے بدتر ہم کب تھے اشرف المخلوقات کیونکہ ہم تو ہیں غلام ابن غلام ہمارے کیا
سپنے ہمارے کیا خواب ہمارے کیامطالبے ہماری کیا گزارشات چاہےسرائیکی وسیب میں آئل ٹینکر سانحہ ہو سینکڑوں لقمہ اجل بن جائیں جل بھن جائیں کس کو کیا تکلیف ہم
ہیں ہی اس قابل بس فرق صرف اتنا ہے آج ہماری باری تھی کل تمھاری ہوگی پھر کسی اور کی ………. پھر کسی اور………….
اے ظالم حاکم وقت تیرےبس میں ہے بس اتنا کہ
نوٹس لینا اور فوری تین دن میں رپورٹ بس فوٹو سیشن ،سیلفیاں چند لاکھوں کی مالی معاونت بناوٹی اور جھوٹ موٹ کی طفل تسلیاں ، جھوٹے لارے اور دلاسے اور مگر مچھ کے آنسو……… کاش یہ صدمے یہ آزمائشیں
تجھ بھی بیتی ہوتیں پھر تجھے دکھ معلوم ہوتا ہم جیسے بےبس لاچار مجبوروں کا جن کی معصوم بیٹیاں ترستی ہیں عیدوں پر مہندی اور چوڑیوں کو
مگر بدقسمت رنگتی ہیں اپنے ہاتھوں کو اپنے پیاروں کے لاشے سے ٹپکتے خون سے اورچوڑیاں ویسے ہی ٹوٹ جاتی ہیں بدقسمت سپنوں خوابوں اور خیالوں کیطرح
40 سال سے یہ قاتل خونی سنگل روڈ کئی حادثات کو جنم دے چکا کیا اب بھی کسی خونی منظر ،
کسی قیامت صغری کا مزید انتظار رہے گا یا کسی بے بس مجبور و لاچار بے یارومددگار کی آہیں ہی تمھارے عروج کو زوال بخشیں گیں یا کچھ خوف خدا ہوگا
کیونکہ کفن پوش احتجاج سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا پر بارہا احتجاج کے بعد تخت لہور سے صرف اس قاتل خونی روڈکو فنڈز کی کمی کے باعث صرف پنکچرز لگانے کے آرڈرز اور فرمان تو جاری ہوتے ہیں
لیکن دو رویہ ون وے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھتا نہیں دکھائی دیتا.جس کے لیئے آج مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر،وزیر اعظم،وزیر اعلی پنجاب، سے لیکر ایک چپڑاسی تک اس کے متعلقہ افسران
،اہلکاران ممبران سینٹ ،ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اور چیئرمین NHA ,وفاقی وصوبائی وزیرمواصلات اور اہلیان ڈی جی خان ڈویژن و ضلع راجن پور ہم سب انکے قاتل ہیں اور یہ خون ناحق ہماری گردن پر ہے
جس کے لیئے اس دنیا میں تو جوابدہ ہیں ہی بروز قیامت اور بروز حشر بھی اس کی باز پرس ہوگی مگر شاید ہمارے پاس اسکا کوئی جواب نہ ہوگا
آج کے المناک حادثے نے پورے وسیب،خاص کر ضلع راجن پور کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،اب اس معاملے پر خاموشی بےحسی ہوگی ۔۔
کب تک بے بس زندگی گزارتے رہیں گے کب تک اپنوں کی لاشوں کو کاندھا دیکر تیرا سردار میرا سردار زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے کب تک پارٹی پارٹی کھیلتے رہیں گے کب تک اپنے خون کو پانی کی طرح بہتا دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہیں گے خدارا نکلو اپنے پیاروں کے
حقوق کے لئے نکلو ان بے بس حکمرانوں کے گھروں کا رخ کرنے کے لئے آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں ہماری باری بھی لگ سکتی ہے ان روڈوں پے خدا کے لئے
ہر گروپ ہر پارٹی کو سائیڈ پے رکھ کر اس قاتل خونی روڈ کو ون وے دو رویہ ڈبل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں
سوال یہ ہے کہ
یہ روڈ پچھلے کئی سالوں سے ہردوسرے دن کسی نہ کسی معصوم کی جان لیتا ہے ۔۔۔۔ پریس کانفرنسوں میں یہ روڈ منظور ہے مگر کب بنے گا ؟؟؟؟؟؟ جب کوئی انسانی حقوق کا
بڑا ٹھیکیدار یہاں مرے گا ؟ تب؟؟؟؟
جب ان غریبوں کی بجائے کسی اعلی نسل کے انسان کی موت ہوگی تب ؟؟؟؟
آئے روز یہ واقعات آخر کیوں معمول کا حصہ بنتے جارہے ہیں ؟
ہم اگر عملی طور پر بطور معاشرہ قدم نہیں اٹھا سکتے تو کم سے کم سوشل میڈیا پر آواز ضرور اٹھا سکتے ہیں
اور ارباب اقتدارو بااختیار کے اندھے اور بہرے حاکمین وقت تک اپنی یہ آواز پہنچا سکیں کیونکہ آجکل یہ اندھے،گونگے،بہرے ،بے حس سوشل میڈیا پر کیئے گئے
احتجاج پر سنا ہے جلد ایکشن لیتے ہیں اور خاموشی اور بے حسی کی خدانخواستہ حسب سابق روایت برقرار رہی تو یہ نہ ہو کہ
کل خدانخواستہ ہم اپنے کسی بھائی ۔۔
بیٹے یا اپنے پیارے کی یوں عید سے ایک دن قبل لاش اٹھارہے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ اور خوشیوں کے جگہ ہمارے گھر بھی خدا نہ کرے ماتم ہو ۔۔۔۔۔!
انا للہ وانا الیہ راجعون
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ