زاہد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہید چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کا سب سے چھوٹا بیٹا شاھنواز بھٹو اپنے والدین ، بہنوں بینظیر اور صنم اور بھائی مرتضیٰ کا لاڈلا اور چہیتا تھا۔ مرتضیٰ جب اپنے والد کی وسیع لائبریری سے کارل مارکس، لینن اور ماؤزے تنگ کی کتابیں لے کر پڑھتا تھا تو شاھنواز بھی وہ کتابیں نہ صر ف پڑھتا تھا بلکہ اپنے بڑے بھائی سے ان سے متعلق مختلف سوالات بھی کرتا تھا۔ اس نے باقاعدہ کراٹے بھی سیکھا اور بعض دفعہ چئرمین ماؤ کی کیپ لگائے وہ چی گویرا اور کاسترو کی طرز کے کپڑے پہنے ہوئے بھی نظر آتا۔ 5-جولائی 1977 کو اپنے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا ضیاءالحق اور اس کے فوجی ٹولے کے ہاتھوں تختہ الٹنے کے وقت وہ تعلیمی چھٹیوں پر پاکستان میں ہی تھا- اور اپنے والد کی مری میں نظر بندی کے بعد اپنی والدہ ، بھائی اور بہنوں کے ہمراہ 7-جولائی کو کراچی آ گیا تھا۔یہاں پارٹی کارکنوں کی آمد کی سلسلہ شروع تھا اور بیگم بھٹو ، بینظیر اور مرتضیٰ دن بھر کارکنوں سے ملتے رہتے۔ شاھنواز بھٹو اپنا وقت ادھر ادھر گھوم پھر کر گذارتا۔ کبھی وہ والدہ کے پاس جا کر بیٹھ جاتا جو کارکنوں سے مل رہی ہوتیں، کبھی مرتضیٰ کے پاس بیٹھ جاتا اور کبھی وہ فخری بی بی سے گپیں لڑاتا کبھی لائبریری میں چلا جاتا اور کچھ وقت وہاں گذارتا یا پھر ؎بنگلے کی انیکسی میں بنے اپنے کمرے میں چلا جاتا۔بیگم بھٹو نے اس کو صنم بھٹو کے ساتھ دو تین دن کیلیے لاہور بھی بھیجا تھا جہاں پارٹی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا تھا۔
میری عادت تھی کہ میں اپنی ویسپا اسکوٹر بنگلے کے اندر کھڑی کرتا تھا۔ جب ملاقات کیلئے آنیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو کاروں میں آنیوالے لیڈروں کی گاڑیا ں بھی بنگلے کے اندر ہی پارک ہونے لگیں۔ مجھے بنگلے کے چوکیدار نے کہا کہ ؎آپ اپنی گاڑی بنگلے کی انیکسی کے پاس لگایا کریں جہاں بیگم صاحبہ کی گاڑی کھڑی ہوتی ہے کیونکہ گیٹ کے پاس موٹر سائیکلیں کھڑی کرنے سے بیگم صاحبہ نے منع کر دیا ہے چنانچہ میں اپنی گاڑی انیکسی کے پاس کھڑی کرنے لگا۔جہاں شاھنواز اور میر بابا (مرتضیٰ) کے کمرے تھے۔
ایک دن پیر آف رانی پور نے بیگم بھٹو سے ملاقات کی ۔ میں ان کی کچھ تصاویر بنا کر اے ڈی سی روم میں آ گیا جہاں بینظیر بھٹو خواتین کے ایک وفد سے مل رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ کا نوکر دوست محمد آیا اور کہا کہ بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں ۔ میں اس کے ساتھ چلا تو وہ مجھے لے کر بنگلے کی انیکسی والے حصے کی طرف لے گیا جہاں بیگم صاحبہ کھڑی چوکیدار سے بات کر رہی تھیں۔مجھے دیکھ کر وہ بولیں کہ شاہ (شاہنواز) کو تم اپنی بائک دیتے ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اپنی بائیک مت دو۔ وہ کہیں اپنی ٹانگ وانگ نہ تڑو ا بیٹھے۔یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ میں نے دوسو (دوست محمد) سے پوچھا کہ یار یہ کیا معاملہ ہے تو اس نے کہا کہ بیگم صاحبہ پیر آپ رانی پور کو ملاقات کے بعد گاڑی تک چھوڑنے آئیں تو شاہ بابا تمہاری اسکوٹر پر باہر سے آ رہا تھا کہ بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا وہ خاموشی سے تمہاری گاڑی کھڑی کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا ہے اور بیگم صاحبہ کے کہنے پر جب میں بلانے گیا تو بھی نہیں آ رہا ہے شاید ماں سے ڈر گیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے چوکیدار نے کہا تھا کہ اپنی گاڑی یہاں لگایا کرو اور لاک مت کرنا کہ جب زیادہ گاڑیاں آ جاتی ہیں تو اسکوٹر ہٹانے میں آسانی رہتی ہے چنانچہ میں گاڑی لاک نہیں کرتا۔ دوسو ہنسنے لگا کہ جبھی شاہ کی موجیں ہو گئی ہیں اور وہ تمہاری اسکوٹر لے کر اطراف کی گلیو ں میں گھومتا رہتا ہے۔ میں نے کہا شاید اسی لئے میں دفتر سے بنگلے آتا ہوں اور واپسی میں میری گاڑی ریزرو پر لگانا پڑتی ہے۔یہ واقعہ بتانے کا مطلب یہ ہے یہ شاہنواز بھٹو اٹھارہ انیس سال کی عمر میں بلکل ایک عام نوجوان کی طرح ہی تھی ۔ چھٹیوں کے بعد وہ اپنی تعلیم کے لئے واپس چلا گیا مگر 18-مارچ 1978 کو اپنے والد کو لاہور ہائیکورٹ سے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد وہ ایک ہنس مکھ نوجوان سے ایک عسکری تنظیم کا انتظام کاربننے پر مجبو ر ہوا۔ اور اس نے اپنے تئیں ایک فاشسٹ فوجی جنتا کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک چلانے کی بھر پور کوشش کی۔ مگر اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کی سازشوں شکار ہو گیا اور فرانس میں اپنے اپارٹمنٹ میں پر اسرار طور پر مردہ پایا گیاجبکہ اسکا بھائی، دونوں بہنیں اور ماں نے گزری شب کچھ وقت ساتھ گذارا تھا۔فرانس کی پولیس نے اس کی بیوی ریحانہ کو چھ ماہ تک شک کی بنیا د پر اپنی حراست میں رکھا مگر بعد ازاں اسے رہا کر دیا گیا اور وہ اپنی اور شاہنواز کی اکلوتی بیٹی سسی کے ساتھ امریکہ چلی گئی۔
تفتیش میں طوالت کے باعث شاہنواز کی میت پاکستان لانے میں تاخیر ہوتی رہی اور بینظیر بھٹو صبر سے فرانس پولیس کی اجازت کا انتظار کرتی رہی۔ بالآخر اس نے 14-اگست 1985 کو اپنے چھوٹے اور پیارے بھائی شاھنواز کی میت کے ساتھ پاکستان آنے کا اعلان کیا۔ بینظیر کے اس اعلان نے جنرل ضیاء انتظامیہ کو پریشانی میں ڈال دیا کیونکہ تدفین کے موقع پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ضیاءالحق کی لگائی گئی پابندیوں کو توڑ کر جمع ہونے جا رہی تھی چنانچہ ضیاءالحق انتظامیہ نے جلا وطن بی بی کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کئے اور فرانس کی حکومت پر زور دیا کہ شاھنواز کی میت تو آنے دی جائے مگر بی بی کی پاکستان آمد کو روکا جائے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔
بینظیر بھٹو اپنے بھائی شاھنواز کی میت کے ساتھ 22-اگست 1985 کی صبح کراچی پہنچیں۔ ایرپورٹ پر ہی شاہ بابا کی میت لاڑکانہ جانے والے فوکر جہاز میں منتقل کی گئی۔ لاڑکانہ کے موہنجو ڈارو ایرپورٹ پر عوام کا ایک جم غفیر موجود تھاجو غمزدہ بی بی اور شاہ بابا کی میت کے ساتھ ماہ اگست کی لاڑکانہ کی شدید گرمی میں المرتضیٰ ہاؤس آیا۔ مگر بی بی گھر میں جانے کی بجائے سیدھی گڑھی خدا بخش گئیں اور چھوٹے بھائی کیلیئے قبر کی جگہ بتائی اورتدفین وغیرہ کے دیگر انتظامات کا جائزہ لے کر واپس لاڑکانہ آ گئیں۔ایرپورٹ سے جلوس کے ساتھ جب میں چلا تو المر تضیٰ ہاؤس کے پاس چوک سے بنگلے تک اتنا ہجوم تھا کہ گاڑیا ں پھنس گئیں اور میں تصویریں بناتا گاڑی سے اتر کر شاہنواز کے تابوت والی ایمبولینس کے ساتھ چلنے لگا ۔میں کبھی چل رہا تھا اور کبھی ایمبولینس کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ گرمی بہت شدید تھی اور ایرپورٹ سے بنگلے تک کافی وقت دھوپ میں رہنے اور پینے کا پانی نہ ہونے سے میری حالت خراب ہونے لگی اتنی دیر میں ہم بنگلےکے گیٹ پر پہنچے ایمبولینس کے ساتھ سینکڑوں لوگ ایک دوسرے سے تقریباَ چبکے ہوئے چل رہے تھی ایمبولینس جیسے ہی بنگلے کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی کچھ لوگوں نے گیٹ بند کرنے شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں مجھ سمیت ایک بڑی تعداد ایک ہجوم کی صورت میں بنگلے کی دیوار اور پھاٹکوں کے بیچ پھنس گئی گرمی سے ویسے ہی برا حال تھا کچھ دیر اس گرمی میں بھاگا بھی تھا لہٰذہ اس ہجوم میں پھنسےا ہی میں بے ہوش ہو گیا، میں نے 1970 سے شہید چئیرمین بھٹو اور بی بی کے بڑے بڑے اجتماع کور کئے ہیں مگر میں کبھی اس طرح بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ میں کسی مجمع میں بے ہوش ہوا تھا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میرا ایک ساتھی فوٹوگرافر جو مجھ سے کافی جونییر ہے میرے سرھانے بیٹھا مجھے اپنی قمیض سے ہوا دینے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ میر ی حالت دیکھ کر رو رہا تھا۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے پانی کی آواز لگائی اور وہاں موجود کئی رضاکار پانی لیے آ گئے ان میں سے ایک نے پیتل کے ایک برتن میں سے گلاس بھر کر میرے ساتھ کو پکڑا دیا جس نے سہارا دے کر مجھے بٹھایا اور تھوڑا پانی پلایا جس سے میری جان میں جان آئی۔میں نے اپنی گردن گھما کر اطراف کا جائزہ لیا تو میری طرح کے درجنوں لوگ نظر آئے جو گیٹ کے پاس پھنس کر بے ہوش ہوئے تھے۔
میرے ساتھی نے بتایا کہ عصر کے وقت نماز جنازہ کا اعلان ہوا ہے جو المرتضیٰ کے قریب واقع اسپورٹس اسٹیڈیم میں ہو گی۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ پڑھی اور شاہ بابا کی میت ایمبولینس میں گڑھی خد بخش روانہ ہوگئی جہاں شاہ با با کو اسکےشہید بابا کی قبر کے قریب دفنا دیا گیا۔
تدفین کی اطلاع کے بعد بی بی نے المرتضیٰ ہاؤس کے لان سے غم کی اس گھڑی میں آنیوالوں کا شکریہ ادا کیا اور مختصر خطاب میں شہید چئیرمین بھٹو کے مشن کو پورا کرنے اور جمہوریت کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ بعد ازاں انہوں نے شاہ نواز کی تدفین کی کوریج کیلیے آئے ہوئے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سے کچھ دیر بات کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔اس کے اگلے دن وہ گڑھی خدا بخش پہنچیں اور شاہنواز بھٹو اور اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قبر وں پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی ۔اس موقع پر کارکنوں کی ایک بڑی تعداد قبرستان میں موجود تھی۔ ضیاءالحق انتظامیہ نے بعد میں بی بی کو نظر بند کر دیا۔جہاں کئی دن کی نظربندی کے بعد ان کو رہا کیا گیا اور وہ واپس بیرون ملک چلی گئیں اور پھر اگلے سال یعنی 10-اپریل 1986 کو جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں جہاں لاہور میں ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔
———————————————————–
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر