نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موسیقی‘ محبت اور ہمارا نام||رسول بخش رئیس

۔ معلم ہوں لیکن معلوم نہیں پاکستان کی کون سی یونیورسٹی میں موسیقی کا ماحول اور معیار ایسا ہے کہ امید سے آنکھیں چمک اٹھیں۔ حفیظ ہوشیار پوری پر ہی ختم کرتا ہوں‘ سنیے تو ہر شعر خیال اور الفاظ کے موتیوں میں پرویا ہوا ہے‘ م

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے ہم محبت کی بات کرتے ہیں‘ ایسا جذبہ اور کیفیت کہ جس کے بغیر دنیا کا کوئی کام نہ شروع ہو سکتا ہے‘ نہ اس سے لطف اٹھایا جا سکتا ہے‘ اور نہ اسے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ محبت سب کچھ حاصل کر لیتی ہے‘ جسے اقبال نے ”فاتحِ عالم‘‘ کہا تھا۔ میں اس وقت فلمی محبت کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا‘ کسی اور دن کے لیے چھوڑتے ہیں‘ یا وہ محبت جس کے تجربے سے شاید ہی کوئی ذی روح نہ گزرا ہو۔ کم ہی ہوں گے‘ جنہوں نے سیٹی نہ بجائی ہو‘ خواب آنکھوں میں نہ سجائے ہوں‘ سایوں کا پیچھا نہ کیا ہو‘ خیالات کے محل نہ تعمیر کئے ہوں‘ یا وسیع خلا میں بادلوں کے جھرمٹ میں نہ تیرا ہو۔ اور پھر ‘اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا‘ کا راز نہ کھلا ہو۔ شکیل بدایونی نے تو کمال کی غزل لکھی‘ کس خوبصورتی سے ہمارے ہی جذبات کی ترجمانی کی۔ محبت ہی میں تو ایسی تخلیق اور شاعری ممکن ہے۔ لگن‘ گہرائی‘ گیرائی‘ فکری آزادی‘ سکون‘ تنہائی‘ ماحول اور کچھ اپنے دل پہ گزری وارداتیں۔ شاید شکیل کی یہ اور دیگر غزلیں وہ مقام حاصل نہ کر پاتیں‘ اگر بیگم اختر انہیں اپنی سُر تال میں نہ باندھتیں۔ نہ جانے کتنی بار سنی ہے‘ دل ہی کبھی نہیں بھرا۔ بیگم اختر کی گائیکی ہو یا استاد بڑے غلام علی خان کی‘ ایک دور کی نمائندہ تو ضرور ہے‘ مگر برِصغیر میں موسیقی سے محبت کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کی طرح تازہ‘ شگفتہ اور پُرگداز رہے گی۔ ان گنت گلوکاروں نے بیگم اختر کی گائی سب غزلوں کو انہیں کی طرز اور موسیقی کے کچھ جدید آلات سے ہم آہنگ ہو کر گایا ہے‘ غزل کا لطف تو رہتا ہے‘ مگر وہ سرور کہاں جو بیگم اختر کی کھنکتی آواز اور سریلے پن میں ہے۔ سوچتا ہوں‘ وہ کتنے خوش بخت ہیں جو موسیقی کو محاورتاً نہیں بلکہ واقعتاً ”روح کی غذا‘‘ سمجھتے ہیں اور اس کی روحانی کیفیت میں فرقت کے لمحے گزارتے ہیں۔ اس خاکسار کو موسیقی سے فطری لگائو رہا ہے کہ دل و دماغ کو کھلا رکھا تو اس کے لیے جگہ خود بخود بنتی گئی۔
اعلیٰ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزرنا امریکی جامعات میں سب کے لیے کٹھن آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ بہت سے حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ وطن سے دور دیہاتوں سے اٹھ کر آئے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے ہم جیسے طلبہ کے لیے ایک مختلف ثقافت اور تعلیمی دبائو کے ماحول میں جینا دوبھر ہو سکتا ہے۔ اگر تعلیم کو تفریح کے ساتھ نہ جوڑا جائے تو شاید کشتی کبھی پار نہ لگ سکے۔ وہاں وسائل اور اسبابِ تفریح کی کمی نہ تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کا ماحول نہ تھا‘ بلکہ دوستیاں اور یارانے تھے‘ ایسے پائیدار کہ چالیس سال کے بعد آج تک قائم ہیں‘ اور ملاقاتیں بھی کہیں نہ کہیں ہو جاتی ہیں۔ موسیقی میرے لیے بہت بڑا سہارا تھی۔ ریڈیو تو جامعہ پنجاب کے زمانے سے سرہانے ہوتا۔ فلمی گانے سرحد کے اس پار کے ہوں یا ادھر کے‘ اب تک کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وہاں اور کس قسم کی موسیقی سے تعارف ہوا۔ پنڈت روی شنکر کے توے والا ریکارڈ ہاتھ لگا تو بھیروی اور دھن کافی نے دل لوٹ لیا۔ کئی ماہ تک گراموفون پر ایک ہی ریکارڈ سنتا رہا۔ ان کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ اس کے بعد جب استاد ولایت خان‘ استاد شجاعت خان کو دریافت کیا اور وہی دھنیں اور راگ ستار اور طبلے پہ سنے تو فن‘ ریاضت اور اثر میں پنڈت روی شنکر سے کئی درجے انہیں آگے پایا۔ یہ الگ بات ہے کہ روی شنکر مغرب اور امریکہ میں برِصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں چھائے رہے اور بڑا نام کمایا۔ یہ انہیں کے کریڈٹ پہ ہے کہ اس زمانے میں اس موسیقی کو وہاں متعارف کرایا‘ جب بیٹلز اور راک میوزک نئی نسل کے دل و دماغ جیت رہے تھے۔ ہمارا مرض بھی بڑھتا گیا‘ جوں جوں دوا کی۔ اگلا قدم جاز موسیقی تھا۔ بندہ امریکہ میں رہے اور جاز سے بیگانہ رہے‘ ہم ایسے بے ذوقوں میں نہ تھے۔ پھر یورپی کلاسیکی موسیقی کی باری آئی‘ جو صدیوں سے اسی طرح تازہ اور مسحور کن ہے‘ جیسی زمانۂ تخلیق میں تھی۔ اندھیری شاموں اور لمبی سرد راتوں میں انگیٹھی کے سامنے نیم دراز ہوں اور ساتھ ہی یہ موسیقی ہو تو کئی زمانوں کی یادیں ذہن میں گزر جاتی ہیں اور کئی امکانات جنم لیتے ہیں۔
موسیقی‘ مذہب‘ قومیت‘ موسموں کے تغیر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں‘ اور آزاد رہیں گے۔ کبھی مصر کی روایتی موسیقی سنیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے‘ ہم صحرا میں خیمہ زن ہیں۔ افریقہ کے ڈھول کا سحر ہی ایسا ہے کہ آپ کو گھنے جنگلات‘ دریائوں کے کنارے اور ریگستانوں کے پہاڑوں کی سرمئی شامیں دکھائی دینا شروع ہو جاتی ہیں۔ وطنِ عزیز کا فوک میوزک‘ کسی بھی صوبے اور خطے کا ہو‘ بے مثال ہے۔ زبان و ثقافت کے حوالے سے سندھ اور چولستان کی روایتی موسیقی منفرد ماحول طاری کرتی ہے۔ کاش ہم ان فقیروں‘ سادھوئوں اور اپنی روایت سے وابستہ خستہ حال فنکاروں کی سرپرستی کرتے۔
معافی چاہتا ہوں‘ اصل بات تو میں بھول ہی گیا تھا‘ خیالوں کا طوفان کہاں سے کہاں لے گیا۔ بہت بات ہوتی ہے کہ ملک کا ”سافٹ امیج‘‘ کیسے پیدا ہو‘ لیکن میں اس دن نیو یارک میں تھا۔ یہ 1993 کا یومِ آزادی تھا۔ نصرت فتح علی خان نے شہر کے وسط میں واقع سنٹرل پارک میں سہ پہر کے وقت موسیقی کا رنگ جمایا ہوا تھا۔ ہزاروں امریکی امڈ کر نہ جانے کہاں سے آگئے تھے۔ غالباً اس کے اشتہار کہیں لگ چکے تھے۔ مجمعے کی کیفیت دیکھنے والی تھی۔ گورے‘ گوریاں ”مست مست‘‘ پہ ہر جگہ ناچ رہے تھے۔ خیر ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ 17 اگست کے نیویارک ٹائمز میں آرٹ کا صفحہ سارے کا سارا نصرت فتح علی خان کی موسیقی پر تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد پاکستان کے کسی فنکار پر دنیا کے اس بڑے اخبار میں اتنی تعریف کی گئی ہو اور اتنا عقیدت کا اظہار ہوا ہو۔ اس سے پہلے کا ایک دن کا یہی اخبار میرے پاس محفوظ ہے‘ جس میں ہمارے سیاسی رہنمائوں کی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ ذرا سوچیں‘ ملک کا نام بنانے والے کون تھے اور کالک ملنے والے کون ہیں۔ معلوم نہیں یہ خبر آپ تک پہنچی ہے یا نہیں کہ عروج آفتاب کی گائی حفیظ ہوشیار پوری کی مشہور غزل ”محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے‘‘ بارک اوباما کی موسمِ گرما کی موسیقی کی فہرست میں ہے۔ اس خبر نے جب چونکایا تو فوراً ویڈیو تلاش کی اور کئی بار سنی۔ رویا تو نہیں کہ مینہ برسنے کی عمر بیت چکی‘ پلکیں نہ جانے کتنی بار پُرنم ہوئیں۔ ہمارے بڑے غزل گو اسے پہلے گا چکے ہیں‘ مگر عروج کی بات ہی اور ہے۔ وہ خود کمپوزر ہیں‘ برکلی سکول آف میوزک‘ بوسٹن سے گریجویشن کی ہے اور کئی سالوں کی ریاضت نے لاہور کی عروج کو عروج بخشا ہے۔ مارچ میں یہ غزل آئی اور اب تک تین لاکھ تیرہ ہزار سے زیادہ لوگ دنیا کے کونے کونے سے سن چکے ہیں۔ تبصرے تو ہزاروں میں ہیں۔
کمال کے فنکار‘ شاعر‘ موسیقار‘ اداکار اور لکھاری وطنِ عزیز کی زرخیز مٹی نے پیدا کئے ہیں۔ تخلیق کے ادوار‘ مختصر سہی‘ آئے ضرور۔ مایوس تو اب بھی نہیں ہوں مگر اب شور بہت ہے۔ سیاسی دنگا فساد برپا ہے‘ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ داستانیں لوٹ مار کرنے والوں کی چلتی ہیں‘ میڈیا پہ ان کی تصاویر‘ آوازیں اور رعب داب ہے۔ محبتیں اور تخلیق ایسے زمانوں کے لیے نہیں، ڈر یہ ہے کہ بچی کھچی موسیقی کی روایات بھی دم نہ توڑ دیں۔ اطلاع کے لیے عروج بیس سال سے امریکہ میں رہ رہی ہے۔ تخلیق کے لیے سحر جیسے رنگ و بُو‘ آسودگی‘ فرصت‘ آزادیٔ فکر‘ سماجی ماحول اور اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ معلم ہوں لیکن معلوم نہیں پاکستان کی کون سی یونیورسٹی میں موسیقی کا ماحول اور معیار ایسا ہے کہ امید سے آنکھیں چمک اٹھیں۔ حفیظ ہوشیار پوری پر ہی ختم کرتا ہوں‘ سنیے تو ہر شعر خیال اور الفاظ کے موتیوں میں پرویا ہوا ہے‘ مگر اس کی چوٹ کا مزا ہی کچھ اور ہے:؎
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author