نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چوہدری کا انتقام||رؤف کلاسرا

ب دو تین سال سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن لگتا ہے خان صاحب نے جب مونس الٰہی صاحب کو وزیر بنانے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے اندر جونیجو جیسی جرأت پیدا نہ کرسکے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار سب نے مل ملا کر اس ملک میں کرپٹ اور کرپشن کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بنا ہی دیا ۔اب کرپٹ اور کرپشن کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

اگرچہ وزیراعظم عمران خان سے کوئی امید باقی رہ تو نہیں گئی کہ کون سی ایسی سیاسی قسم تھی جو انہوں نے اپوزیشن کے دنوں میں کھائی اور وزیراعظم بن کر اسے دیدہ دلیری سے توڑا نہیں لیکن پھر بھی توقع تھی کہ شاید کبھی وہ کہہ دیں کہ کافی ہوگیا‘ بہت ہوگیا کمپرومائز‘ بہت یوٹرن لے لیے۔ بندہ کہیں نہ کہیں تو رک ہی جاتا ہے۔ ضمیر لاکھ سویا ہوا ہو کبھی تو بول پڑتا ہے۔ خان صاحب نے چوہدریوں سے بیس برس تک طویل جنگ لڑی‘ انہی کی وجہ سے جنرل مشرف کو چھوڑا۔ بیس برس ان کے سکینڈلز اور لوٹ مار کی کہانیاں قوم کو سنا کر سب کے دل گرماتے رہے۔ پرویز الٰہی کو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دیا۔ سب سمجھتے تھے کہ عمران خان کبھی ان چوہدریوں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ خان صاحب نے اپنا امیج ایسا بنا لیا تھا کہ لوگوں کو لگا کہ یہ بندہ سچا ہے ‘ کبھی غلط بیانی نہیں کرے گا‘ اس قوم کو لٹیر وں سے نجات دلوائے گا۔یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ پرانے لٹیروں سے جان چھڑانا تو رہا ایک طرف وہ الٹا نئے لٹیرے پیدا کریں گے جن کو وہ اپنی حکومتی چھتری تلے پناہ دیں گے۔اب حال یہ ہوا ہے کہ” پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘‘ آج کے سب سے بڑے اتحادی ہیں۔ وہی پرویز الٰہی آج صوبائی اسمبلی کی صرف دس سیٹوں کے ساتھ پنجاب کو چلا رہے ہیں۔ پرویز الٰہی کے خلاف نیب کے مقدمات ختم کرانے میں خان صاحب کی حکومت پیش پیش تھی۔ نیب کی تاریخ میں پہلے شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ ادارے نے خود لکھ کر عدالت میں دیاہو کہ چوہدریوں کے خلاف مقدمات بند کر دیے جائیں۔ یہ مقدمات بیس سال پرانے تھے۔ اس دوران چوہدری برادران پرویز مشرف کے ساتھ مل کر پنجاب میں وزیراعلیٰ رہے‘ ملک کے عبوری وزیراعظم رہے‘ زرداری کی حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم رہے تو بھی یہ مقدمات چلتے رہے۔ اندازہ کریں چوہدریوں نے اپنے مقدمات ختم کرانے کا موقع بھی چنا تو وہ جب اس ملک کے وزیراعظم عمران خان ہیں۔ خان صاحب سے چوہدری اس سے بہتر بدلہ نہیں لے سکتے تھے کہ جو انہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا تھا وہی اپنے وزیروں کو کہے کہ نیب سے چوہدریوں کے مقدمے ختم کرائو۔
اب تین سال تک خان صاحب ڈٹے رہے کہ وہ مونس الٰہی کو وزیر نہیں بنائیں گے۔ آخرکار چوہدریوں نے وزیر بنوا کر ہی دم لیا۔ چوہدریوں نے جو بھی ٹارگٹ سیٹ کیے تھے وہ سب پورے کیے۔ انہیں شکایت تھی کہ عمران خان لاہور آتے ہیں اور ان سے نہیں ملتے۔ چوہدریوں نے تھوڑی سا دبائو ڈالا تو خان صاحب ان کے گھر پہنچے ہوئے تھے۔ چوہدریوں کا اگلا مطالبہ تھا کہ ان کے اضلاع میں افسران ان کی مرضی کے لگیں گے ‘ وہی ہوا۔ اب آخری مشن جو باقی رہ گیا تھا وہ مونس الٰہی کو وزیر بنوانا تھا اورانہوں نے بنوا کر دم لیا۔ وہ مونس الٰہی جن کے خلاف سپریم کورٹ کا 2013 ء کا فیصلہ موجود ہے کہ انہوں نے این آئی سی ایل سکینڈل میں جو 34 کروڑ روپے لوٹے تھے وہ لندن کے بارکلے بینک میں موجود ہیں‘ ان سے ریکور کرائے جائیں۔ آٹھ برس بعد وہ پیسہ تو ریکور نہ ہوسکا لیکن صدر صاحب نے ان سے حلف لے لیا۔ وہ عمران خان جنہوں نے بیرونِ ملک سے ان سیاسی لٹیروں کی رقوم واپس لانی تھیں انہوں نے خود ہی مونس الٰہی کو اعلیٰ منصب عطا کر دیا۔
سوچتا ہوں انسان کرسی کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے۔ مونس الٰہی کو وزیر بنتے دیکھ کر خیال آیا‘ اقتدار کی طلب کی کوئی حد نہیں ہے‘ لیکن وہی کرسی جس کی خاطر انسان اپنی روح تک کا سودا کر بیٹھتا ہے وہ کب تک ساتھ دیتی ہے؟ کتنے وزیراعظم آئے کتنے گزر گئے۔ تاریخ میں کون زندہ رہیں گے؟ پچھلے چالیس سالوں میں درجن بھر وزیراعظم گزرے لیکن اسلام آباد میں موجود سینئر صحافیوں‘ افسران اور سیاستدانوں سے پوچھتا ہوں کہ ان کے خیال میں بہتر وزیراعظم کون تھا؟جواب سن کر حیران ہوتا ہوں۔ اکثریت کا جواب ہے‘ محمد خان جونیجو۔ اندازہ کریں جس نے وزیراعظم بننے کے لیے کوئی جلسہ جلوس نہیں کیا‘ کوئی سیاسی بیک گرائونڈ یا سیاسی قد کاٹھ بھی نہ تھا‘ قسمت کا لکھا تھا اور وزیراعظم بنا تو تین برس میں ایسا نام پیدا کرگیا کہ آج بھی لوگ اسے یاد کر تے ہیں۔ سابق وفاقی سیکرٹری انور محمود‘ جو اُن کے پریس افسر تھے ‘سناتے ہیں کہ جونیجو کو پتا چلا کہ ان کا وزیرخارجہ یعقوب علی خان اکیلے صدر ضیاسے جا کر ملا ہے تو اسی رات کے نو بجے والے خبرنامے میں جونیجو کے حکم پر خبر چلوائی گئی کہ وزیرخارجہ نے بعض وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے دیا ہے۔ یعقوب خان کو بھی اپنے استعفیٰ کا پتہ خبر نامے سے چلا۔ آپ سوچ سکتے ہیں آج کا کوئی وزیراعظم یہ جرأت کرسکے؟ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیااور جونیجو میں پہلا جھگڑا ایک کک یا مالی کی مدت ملازمت میں توسیع پر ہوا تھا۔ جنرل ضیاچاہتے تھے کہ ان کے گھریلو سرکاری ملازم کی مدت ملازمت میں ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع کی جائے۔ جونیجو نے فائل پر Not approved لکھ کر بھیج دی۔ اوجڑی کیمپ میں دھماکے ہوئے تو اُس وقت کے اہم جرنیلوں کے خلاف اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی اور انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی ضیا الحق نے انہیں برطرف کر دیا۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جونیجو کے پاس تو وہ عوامی طاقت بھی نہ تھی جس کا دعویٰ نواز شریف‘ بینظیر بھٹو یا اب عمران خان کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ووٹ بینک تھا نہ فالورز تھے‘ نہ الیکٹ ایبلز تھے‘ نہ نعرے لگانے والے تھے۔ نواز شریف کو تو امید تھی کہ ایک دفعہ برطرف ہوئے تو پھر وزیراعظم بن جائیں گے‘ بینظیر بھٹو بھی دوسری دفعہ بن گئیں۔ عمران خان کو بھی یقینا امید ہوگی کہ وہ بھی دوسری دفعہ وزیراعظم بن سکتے ہیں‘ لہٰذا یہ سب کہیں نہ کہیں اصولوں پر سٹینڈ لینا افورڈ کرسکتے تھے۔ ان کو اقتدار سے باہر نکل کر لاکھوں نہ سہی چند ہزار لوگ استقبال کرنے کیلئے مل جانے ہیں۔ جونیجو کے پاس یہ سب کچھ نہیں تھا۔ جونیجو کا مستقبل اگر تھا تو وہ جنرل ضیاکی وفاداری میں تھا لیکن ان جیسا کہنے کو بالکل کمزور وزیراعظم بھی ایک آمر کے سامنے ڈٹ گیا۔ جونیجو صاحب نے بھی سوچا تو کافی ہوگا کہ دل اور ضمیر پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا‘ اس سے زیادہ نہیں۔ جونیجو کو بھی نتائج کا علم تھا کہ کرسی نہیں رہے گی لیکن پھر وہی بات کہ کبھی نہ کبھی آپ کے اندر سے آواز اٹھتی ہے جو آپ کو کہتی ہے” یار کافی ہوگیا‘ بہت کمپرومائز کر لیے‘‘۔ آپ ہر قسم کے نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے‘ تین سال وزیراعظم رہیں یا پانچ سال اب آپ کا نام اس فہرست میں آگیا ہے۔ اب دو تین سال سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن لگتا ہے خان صاحب نے جب مونس الٰہی صاحب کو وزیر بنانے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے اندر جونیجو جیسی جرأت پیدا نہ کرسکے۔ ان کے اندر سے کوئی آواز نہیں ابھری جو انہیں کہتی کہ خان صاحب کافی ہوگیا‘ کچھ عزت سادات باقی رہنے دیں‘ کوئی امید باقی رہنے دیں۔
لگتا ہے وقت کے ساتھ انسان کے اندر سے وہ آوازیں آنا بند ہوگئی ہیں جنہیں سن کر کبھی انسان نتائج سے بے پروا ہو کر فیصلے کرتے تھے یا شاید ہم جن لوگوں کو بڑا سمجھ کر ان سے بڑے فیصلوں کی توقع رکھتے تھے وہ اتنے بڑے تھے نہیں۔ وہ بھی عام لوگوں کی طرح ہی تھے جنہیں وقت یا قسمت نے بادشاہ بنا دیا لیکن وہ بادشاہی کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے ۔چوہدری پرویز الٰہی یقینا ہنستے ہوں گے کہ جس نے انہیں ”پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو ‘‘کا خطاب دیا تھا اسی کے ہاتھوں اپنے بیٹے کو اسی کی کابینہ کی رکنیت کا حلف ڈنکے کی چوٹ پر دلوایا۔ماننا پڑے گا بیس برس بعد ہی سہی لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے خان صاحب سے انتقام لے لیا۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author