حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امڑی حضور
(والدہ صاحبہ کی برسی کے موقع پر لکھی گئی تحریر)
حیدر جاوید سید
62برسوں کے سفر حیات میں سے 20برس منہا کردیجئے، اس طرح والدہ حضور کے سانحہ ارتحال کے وقت ہماری عمر 42برس تھی۔ ان بیالیس برسوں میں سے بہت کم ان کے آنچل کی ٹھنڈی چھائوں اور آنگن میں رہ پایا۔
9سال کی عمر میں اولین سفر پر گھر سے نکل کھڑا ہوا تھا تب سے اب تک سفر میں ہی ہوں۔
اپنی والدہ کی محبتوں اور دعائوں کے حصار میں مسافر بیٹا اب بھی رہتا ہے۔ جی ہمیشہ یہی کرتا ہے کہ اُڑ کر جنم شہر ملتان پہنچوں، اپنی والدہ حضور کی تربت کا بوسہ لوں۔ حال دل بیان کروں اور ہمارے پاس ہے کیا۔ حال دل ہی ہے وہ والدہ کی تربت پر بیان کیا جاسکتا ہے۔
عالمین کے رب کے حضور ہمیشہ یہی عرض کیا، مالک! ممتا کی محبت سے کسی کو محروم نہ کرنا کہ یہ دکھ زمانے سے بڑا ہے۔
ہماری والدہ حضور کو اہل ملتان آج بھی سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ نصف صدی سے اوپر انہوں نے وعظ و نصیحت میں وقت بیتایا۔ حقیقی معنوں میں عالمہ باعمل تھیں۔
ہمارے نانا پیر سید عبدالرحمن شاہ بخاری قیام پاکستان سے پہلے عبدالحکیم (یہ قصبہ اب ضلع خانیوال میں ہے) کے علاقہ سے ملتان منتقل ہوئے۔ اس منتقلی کی وجہ یہ خواہش تھی کہ اولاد کو تعلیم دلوائیں گے۔ ہماری والدہ کا جنم شہر بھی ملتان ہے۔ قدیم پرانے محلے کا جدید نام اب ہمایوں محلہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ گلیوں، محلوں اور سڑکوں کا نام بدلنے والوں کا کسی روشن فکر ملتانی سے تعارف ہی نہ ہو انہوں نے سوچا ہوگاکہ ہمایوں بڑا آدمی تھا۔ بادشاہ ہند، چلو بستی ڈبکراں کا نام ہمایوں محلہ رکھ دیتے ہیں۔
بستی ڈبکراں کی طرح کے سینکڑوں ہزاروں مقامات (شہروقصبے اور سڑکیں) ہیں اس شہر میں جنہیں ان کے ’’اصل‘‘ سے محروم کیا گیا، کیوں؟ سادہ جواب یہ ہے کہ ہمیں چیزوں، بستیوں اور سڑکوں کو مسلمان کرنے کا شوق بہت ہے۔
ہماری والدہ ایک کامل صابروشکر خاتون تھیں۔
والد صاحب نے فوج سے رخصت کئے جانے کے بعد ملتان میں ہی دو تین کاروبار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سادہ مزاج ملنسار سید زادے کے ساتھ وہی ہوا جو ایک دیہاتی کے ساتھ شہر کے میلے میں ہوا تھا جہاں اس کا کمبل کسی نے کاندھے سے اتارلیا گائوں واپسی پر وہ یہی کہتا تھا،
"میلہ کیا تھا جی بس میرا کمبل ہتھیانا تھا لوگوں نے”
بہتر و تلخ معاشی حالات کے باوجود والدہ حضور کے چہرے سے کبھی مسکراہٹ رخصت ہوئی نہ وضعداری اور صبر کا دامن چھوڑا۔
عبدالحکیم، مخدوم پور اور دیگر مقامات پر رہنے والے ہمارے رشتہ داروں کے لئے ملتان میں ہمارا گھر ایک کیمپ تھا۔ کوئی اپنے کسی بھی کام سے ملتان آتا لیکن کہتا یہی، خالہ جی، چچی جان، پھپھی اماں بس آپ کی زیارت کے لئے حاضری دی ہے۔
نماز فجر کے بعد والدہ کی عقیدت مند خواتین (ہمیں حکم تھا کہ ان آنے والی خواتین کو خالہ جان کہہ کر بات کرنی ہے) کی تشریف آوری شروع ہوجاتی اور یہ سلسلہ نماز عشاہ کے بعد تک جاری رہتا۔
ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوتے ہی ہال کمرے کے پہلے دروازے کے ساتھ بچھے تخت پوش پر وہ نماز تہجد کے وقت بیٹھ جاتیں اور یہ تخت پوش دو صورتوں میں خالی ہوتا اولاً جب امی جان باورچی خانہ میں ہوتیں ثانیاً وعظ کے لئے گھر سے باہرتشریف لیجاتیں
عزیزواقارب کے ساتھ وہ ملنے کیلئے تشریف لانے والی خواتین کی خاطر مدارت بھی خلوص سے کرتیں۔ ہمیشہ کہا کرتی تھیں مالک عطا کرتا ہے یہ سارا سامان اس پر حق بھی اس کی مخلوق کا ہے میں تو بس ذریعہ ہوں۔
ملتانیوں میں ان کے شخصی احترام کی وجہ یہی ہے
ہمارے ملتانی احباب و مہربان آج بھی ان کے بچوں کو نام سے بلانے کی بجائے بی بی جی کا بیٹا یا بی بی جی کی بیٹی کہہ کر تعارف کرواتے ہیں، مخاطب کرتے ہیں۔
گھر داری، وعظ و نصیحت اور ذکر ازکار ان کی زندگی کا یہی معمول تھا۔ دوپہر میں کچھ دیر کے لئے آرام کرتیں، شب میں آرام کے اوقات بھی زیادہ طویل نہیں تھے۔ نماز شب کے بعد انہیں آرام کرتے کسی نے نہیں دیکھا۔
20سال ہوتے ہیں انہیں دنیا سرائے سے پڑاو اٹھائے رخصت ہوئے۔
مائیں تواولاد کے دلوں میں بستی ہیں یہ فطری امر ہے۔ ملتانیوں میں آج بھی احترام سے ان کا ذکر ہوتا ہے یہی ان کی زندگی کا حقیقی اور سچا انعام ہے۔
اس تحریر نویس کی وجہ سے والدہ حضور نے بہت دکھ سہے۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے زیرعتاب رہنے والے بیٹے کے لئے وہ ہمیشہ دعاگو ہی رہیں۔ صبر کا دامن انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کے ان دنوں میں بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا جب ان کے عقیدت مند بڑے کرب کے ساتھ کہتے تھے
بی بی جی ! لوگ کہتے ہیں جنرل ضیاء جاوید میاں (تحریر نویس) کو پھانسی کی سزا دے گا۔
وہ آسمان کی طرف دیکھتیں اور بڑے تحمل سے جواب دیتیں کملی والے آقاؐ کا رب اس ماں کو بیٹا واپس کردے گا۔
والدہ حضور کے سانحہ ارتحال کی خبر ملتان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ مردوخواتین اُمڈ آئے۔ 20سال قبل آج ہی کے دن وہ جب سفر آخرت پر روانہ ہورہی تھیں تو چوک خونی برج سے ہمارے گھر کو جانے والی ہر گلی میں لوگ ہی لوگ تھے۔
جنازہ گاہ میں جگہ کم پڑجانے سے نماز جنازہ دوبارہ ادا کی گئی۔ امڑی رخصت ہوئیں مٹی کی چادر اوڑھ کے سورہیں
لیکن ماں کی قبر تو اولاد کے سینے میں ہوتی ہے۔
قبرستان میں بنی تربت تو بس علامتی نشان ہے۔
اللہ رب العزت ہماری امڑی کو سرکار سینڑ پاک بتول سلام اللہ علیہا کی محبوں میں شمار فرمائے آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر