گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بہت پرانے مندر کی چھت پر کبوتروں کی ایک ٹکڑی رہتی تھی۔ مندر کی تعمیر نو شروع ہوئ تو یہ اپنے بچوں سمیت ساتھ والے گرجے کی چھت پر جا بیٹھے وہاں رہنے والے کبوتروں نے انہیں خوش آمدید کہا اور وہ انکے ساتھ ہنسی خوشی رھنے لگے۔
کرسمس آیا تو گرجے کی وائیڈ واش شروع ہو گئ اور سارے کبوتر قریبی مسجد کے میناروں پر آ گۓ۔ یہاں کے کبوتروں نے بھی انہیں قبول کر لیا اور چل سو چل۔
رمضان کے مہینے میں مسجد کا رنگ شروع ہوا تو سارے کبوتر واپس مندر آگۓ کیونکہ یہ تعمیر ہو چکا تھا۔
ایک دن مندر کے قریب مذھبی ہنگامے پھوٹ پڑے اور ہندو مسلم عیسائ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔
کبوتر کے بچے نے ماں سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ماں نے کہا یہ انسان ہیں۔
سوال ہوا یہ کیوں لڑرھے ہیں؟
ماں نے بتایا مندر والے اپنے آپکو ہندو کہتے ہیں ۔ مسجد والے مسلمان اور گرجے والی عیسائ یہ اس بات پہ ایک دوسرے کو قتل کر رھے ہیں۔
کبوتر کے بچے نے ماں سے کہا جب ہم مندر سے گرجے گۓ ہم کبوتر کہلاۓ جب مسجد گۓ پھر بھی کبوتر اور اب مندر میں بھی کبوتر۔۔۔یہ انسان کہلاتے ہیں پھر یہ تین جگہوں پر جا کر انسان کیوں نہیں رھے؟
ماں نے کہا دیکھو یہ خدا کی تلاش میں ضرور ہیں لیکن خدا کی پہچان سے بہت دور ہیں ۔
ہم کبوتر خدا کو پہچان چُکے اس لۓ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں جب انسان خدا کو پہچان لینگے تو قتل رک جائےگا۔ فی الحال ہم کبوتر انسانوں سے بہترمقام رکھتے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر