حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جعفر عطائی افغان تجزیہ نگار ہیں انہوں نے سوال اٹھایا
’’بدخشاں صوبے کے بعض اضلاع میں طالبان کی فتوحات کا بہت شور ہے حالانکہ بدخشاں میں طالبان کے مقابلہ میں مقامی لوگ کہیں زیادہ باوسائل منظم و متحرک ہیں۔ لوگ خصوصاً افغانستان کے دو پڑوسی پتہ نہیں کیوں زمینی حقائق کے برعکس پروپیگنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں‘‘۔
جواد ایثار کا تعلق بھی افغانستان سے ہے وہ کہتے ہیں
’’افغانستان میں بین الاقوامی، علاقائی اور داخلی کشمکش کی پچھلی کم از کم ایک صدی کے دوران ہم نے یہی دیکھا کہ کثیرالنسلی ملک افغانستان میں پشتونوں کو اقتدار اعلیٰ پر مسلط کرنے میں ہر کس و ناکس نے حصہ ڈالا۔ کبھی کسی نے غیرپشتون آبادیوں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی”۔
جوادایثار نے ایران کے حالیہ طرز عمل پر بھی تنقید کی وہ کہتے ہیں
"ایران شیعہ ہزارہ افغانوں کو یہ مشورہ کیوں دیتا ہے کہ وہ طالبان سے صلح جوئی کا راستہ اپنائیں کیا ایرانی نہیں جانتے کہ ہزارہ قبیلے نے طالبان کے پچھلے دور میں کیسے کیسے مصائب کا سامنا کیا اور اب بھی صرف پچھلے چند سالوں کے دوران 2ہزار سے زائد ہزارہ مرد و زن اور بچے طالبانیت کی بھینٹ چڑھے‘‘۔
جواد ایثار نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر لکھے گئے اپنے حالیہ مضمون میں انگنت سوالات اٹھائے ہیں وہ کہتے ہیں "افغانستان کو صرف پشتونوں کا ملک سمجھنا اور قرار دیناایک جرم ہوگا۔ یہاں تاجک، ازبک، ہزارہ اور دوسرے بڑے قبائل بھی موجود ہیں جو غیرپشتون ہیں۔ آبادی کے مجموعی تناسب میں غیرپشتون زیادہ ہیں۔ چونکہ افغانستان کی پاکستان سے ملحقہ سرحد کے اس طرف پشتون آبادیاں ہیں اس لئے غلط طورپر یہ سمجھ لیا گیا کہ افغانستان پشتونوں کا ملک ہے”۔ جواد کے بقول
” ہمارے (غیرپشتون افغان آبادیوں) لئے امریکہ، طالبان اور پڑوسی ایک جیسے ہیں یہ سب ہماری نسل کشی کے مجرم ہیں‘‘۔
چند گھنٹے قبل شہریار علی خان کے توسط سے ہارون وزیر کا مضمون موصول ہوا۔ ہارون وزیر نے سوال کیا، طالبانی دور کو سنہرااور مثالی قرار دینے اور اس پر ناز کرنے والے ہمیں سمجھائیں گے کہ
اس مثالی دور میں عوام کے لئے کتنی یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے بنائے گئے۔ یا یہ کہ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں میں سے طالبان دور میں کتنے فعال تھے اور ان میں کتنے طلبا و طالبات زیر تعلیم رہے؟
نظام صحت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے انہوں نے کیا کیا، کتنے ہسپتال ان کے دور میں بنے،
سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا نظام کیا تھا، کتنی نئی سڑکیں بنیں اور کتنی پرانی سڑکوں کو آمدورفت کے قابل بنائے رکھنے کے لئے کام ہوا؟
بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز میں اضافہ اور پیداواری صلاحیت کیا رہی؟
اس دور میں کتنی غیرملکی ایئرلائنز افغانستان کے لئے پروازیں چلاتی تھیں؟
اس سنہری دور میں ریپ جیسے سنگین جرائم کی تحقیقات کیسے ہوتی تھیں اور سزائیں کن کن بنیادوں پر؟
طالبان کے دور میں افغانستان میں کتنے اخبار نکلتے تھے؟
ان کا یہ سوال بھی اہم ہے کہ کھیلوں کے میدان ویران کرتے ہوئے انہیں وقت کا ضیاع کہنے والوں کے دور میں اگر راشد خان اور مجیب جیسے کھیلاڑی پیدا ہوتے تو وہ چھلیاں فروخت کررہے ہوتے۔
ہارون وزیر لکھتے ہیں ان کی رجعت پسندی کا عالم یہ تھا کہ ان کے دور میں کیمرے والا فون ممنوع تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس وقت افغانستان کی کل آبادی کا دو تہائی حصہ 25سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اپنے روشن اور محفوظ مستقبل کا خواب دیکھنے والے یہ نوجوان چاہتے ہیں اور کچھ نہیں تو انہیں پاکستانی لوگوں جیسا معیار زندگی تو میسر ہو
لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ قوتیں ان نوجوانوں کو جنگ اور دہشت گردی کا ایندھن بنانے پر تلی ہوئی ہیں‘‘۔
جعفر عطائی، جواد ایثار اور ہارون وزیر کی تحریروں سے ہم مزید استفادہ بھی کرتے رہیں گے۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ ایرانی دباو پر شیعہ ہزارہ افغان قبیلے اور طالبان کے نمائندے امیر خان متقی کے درمیان گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی ہے۔ طرفین نے اس ملاقات کی ویڈیو اپنی اپنی سوشل میڈیا سائٹس پر لگارکھی ہے۔
طالبان کا نمائندہ امیر خان متقی شیعہ وفد کو یقین دہانی کروارہا ہے کہ
’’ماضی کی طرح شیعہ علماء اور عام شہریوں سے نامناسب برتاو نہیں کیا جائے گا‘‘۔
ماضی بہت خوفناک بلکہ شیعوں کے لئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ طالبان نے اپنے پچھلے دور میں ان کی منظم نسل کشی کے لئے ابتداً فتویٰ دیا اس فتوے کو پاکستان کے تین بڑے طالبان نواز مدارس (ان میں سے ایک مدرسہ صوبہ پنجاب میں ہے اور دو مدرسے (کراچی صوبہ سندھ میں) کی تائید حاصل تھی۔
مذاکرات کے نام پر لے جائے جانے والے شیعہ عالم کو طالبان نے رسیوں سے باندھ کر ہیلی کاپٹر سے زمین پر پھینکا تھا۔
ابھی پچھلے دو برسوں میں شیعہ ہزارہ پر افغانستان میں ہونے والے 21 حملوں میں سے 9حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔
جواد ایثار نے اس حوالے سے بھرپور تفصیلات کے ساتھ اعدادوشمار بھی پیش کئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہی خیبر پختونخوا کے معروف سماجی کارکن اور کالم نگار ہمدرد حسینی کی ایک تحریر سامنے آئی، انہوں نے افغانستان کے داخلی بحران کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔
ادھر اوریا مقبول جان جیسے داعشی سوچ رکھنے والے طالبانی جنت کا نقشہ کھینچنے میں مصروف ہیں، ان جیسوں کے اپنے بچے امریکہ میں ہیں اور دوسروں کے بچوں کے لئے افغانستان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی سرزمین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہماری دانست میں جس بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ثانیاً یہ کہ بعض معاملات میں ہم کہہ کچھ رہے ہیں اور کر کچھ اور۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے جواب میں عوامی ردعمل کو سول وار کے طور پر پیش کرکے ہم اپنے لئے کانٹے بوئیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر