فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان بطور ہمسایہ ملک ایک بات ہے،افغانستان بطور مسلم ملک ایک اور بات ہے اور افغانستان بطور “معاشی و تزویراتی پاکٹ “کے ایک اور بات ہے۔مسائل سے گھرے ہم اور ہماری ترجیحات ہی دراصل وہ مسلۂ ہیں جن سے ہم پہلے دن سےنبرد آزما ہیں۔
سیاسی محاز پہ بطور قائدین ہمیں بونوں کا وہ مجمع نظر آتا ہے جن کے نزدیک مخدوم شہاب سیاست پر اتھارٹی ہے،معاشی محاز پہ سواۓ ذاتی اور” محکمانہ ترجیح “کے اور کوئ ترجیح نظر نہیں آتی اور ظلم در ظلم ہے کہ نظریاتی محاز پہ ڈرامائ ارطغرل کا زندہ وجود ہمارے نھنے منے مجاہدوں کو افغان طالبان میں نظر آتا ہے۔
تفاوت،منافقت اور جھوٹ کی انتہا دیکھنی ہو تو کوئ ہمارے نظریہ سازوں کو دیکھے۔وہ نظام جس کے خاتمے کے لیے ہم اپنی ایک لاکھ جانیں گنوا بیٹھے ہیں ہمارے بھائ بند اسی نظام کو بطور نظام مملکت افغانستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔نظریہ ساز تو ایک طرف رہے معاشرتی راۓ دیکھنی ہو تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ جنہیں ہمارے نھنے منے مجاہد جہنم کے کتے کہتے رہے ہیں اپنے افغان/مسلم بھائیوں پر وہی جہنم کے کتے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
کیوں؟
اس کیوں کا جواب مطالعہ پاکستان میں تو یوں دیا جاتا ہے کہ،
افغان باقی،کہسار باقی!
الحکم للہ،المک للہ۔۔
مگر مہذب دنیا نواۓ وقت میں تواتر سے چھپنے والے حضرت کے اس شعر کو ایک شعر سے زیادہ وقعت نہیں دیتی۔جنہیں یہ زعم ہے کہ بزریعہ افغانسان وہ ہم ہی ہیں کہ جنہوں نے دو عالمی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اپنے آکڑے سیدھے کریں۔امریکہ اسی کی دہائ میں بھی غیر مستحکم افغانستان آپکی ہمسائیگی میں چھوڑ گیا تھا اور اکیس میں دوبارہ سے ایک غیر مستحکم افغانستان امریکہ آپکی ہمسائیگی میں چھوڑ کے انخلا کے سفر پہ روانہ ہے۔
آپ کہاں ہیں؟
جہاں ہمسائیگی میں بد قماش ہمسایہ گھر لے لے وہاں پورے محلے کی زمین کی قیمت گر جاتی ہے۔پچھلے بیس سال سے سافٹ امیج والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاۓ رکھا اور اب دوبارہ سے یو ٹرن۔آپ پتہ نہیں کس گمان میں ہیں کہ اب افغان طالبان دوبارہ سے دولت اسلامیہ افغانستان کا قلمدان سنبھالیں گے اور ہم بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیں گے یا ہم عالمی مارکیٹ میں ڈرگز کے کاروبار کے بڑے ڈیلر کے طور پر سامنے آ ئیں گے اور یا اس دوران کشمیر،فلسطین اور برما شیخ رشید کی قیادت میں آزاد ہو جائیں گے۔
تو سرکار!
جینے دیں اس دیس کے وطن واسیوں کو۔افغانوں کو اپنی مرضی کرنے دیں اور مانا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر سیاست بد دل بھی نہیں ہوتی۔سیاست ہی ریاست ہوتی ہے۔سیاست ہی نہیں ہو گی تو ریاست کہاں جاۓ گی؟سیاست کی عدم موجودگی انارکی کہلاتی ہے اور ہم کسی صورت اس قابل نہیں کہ انارکی کا بوجھ اٹھا سکیں۔
افغانستان میں امن آۓ گا تو خطے میں امن آۓ گا ورنہ وہی ہو گا جو پچھلے کئ سالوں سے ہم دیکھتے چلے آۓ ہیں۔باقی رہ گئ بات absoultly not اور اڈوں کی فراہمی کی تو تم کون،میں خوامخواہ۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی