ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عذرا عباس کی نظمیں تو یقیناً آپ نے پڑھ رکھی ہوں گی۔
احساس اور درد کی شدت میں گندھے ہوئے الفاظ جو صرف ایک عورت ہی بیان کر سکتی ہے اور ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ زندگی کی کھٹنائیوں اور نارسائی سے سجی ان نظموں کا کمال یہ ہے کہ آپ ان کو پڑھتے ہیں، الفاظ دل پہ اثر کرتے ہیں، لیکن آپ جونہی صفحہ پلٹتے ہیں، نظم کی حساسیت اور شدت آپ کو واپس لوٹ کے پھر سے پڑھنے پہ مجبور کرتی ہے۔ آپ کو اکساتی ہے کہ پھر سے پڑھ کر سوچیں کہ ارے یہ کیا کہہ دیا؟ اتنے سادہ الفاظ میں اتنا گہرا درد اور کتنے پوشیدہ معنی؟
ایک نظم نے ہمیں اس موضوع پہ پھر سے لکھنے پہ مجبور کر دیا ہے جس سے ہم ابھی تک آپ کی برداشت کا امتحان لیے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ چونکہ عورت کی زندگی کا ہے اس لئے ہم آپ کی بیزاری نظر انداز کرتے پہ مجبور ہیں۔
نظم تو ہم آپ کو سنائیں گے ہی لیکن اس سے پہلے ایک سوال کہ کیا ادب برائے ادب لکھا جانا چاہئے یا زندگی کی اندھیری راہوں میں اتر کر ان جذبات کی تصویر کشی کرنی چاہئے جو بہت سوں کی آنکھ سے یا تو اوجھل رہتے ہیں یا نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ عورت کے پیراہن کو لگی آگ آخر کیوں نہ سمجھی جائے؟
“میں سخت بیزار ہوں اور تھک چکی ہوں۔ یقین کیجیے غصہ اس قدر آتا ہے کہ جی چاہتا ہے دنیا کو آگ لگا دوں۔ بات بے بات بھڑک اٹھتی ہوں۔ چڑچڑا پن اور بیزاری اس قدر ہوتی ہے کہ کسی کی شکل دیکھنے کو جی نہیں چاہتا بلکہ دل کرتا ہے کہ سب کو دھکے دوں، ان سے کہوں کہ مجھے اکیلا چھوڑ دیں اور….. اور… کبھی کبھی تو….”
وہ کہتے کہتے رک گئی
“آپ ہنسیں گی تو نہیں؟”
“بالکل نہیں، میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں، آپ بات مکمل کیجیے”
“کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اردگرد ہر کسی پہ تھوک دوں۔ میرے اندر اس خواہش کی شدت اس قدر ہوتی ہے کہ مجھے اپنے آپ کو روکنے کے لئے لڑنا پڑتا ہے”
“ارے عذرا عباس کہیں گائناکالوجسٹ تونہیں رہیں کسی جنم میں اور اسی مریض کی کتھا اپنی نظم میں لکھ دی ہو”
ہم نے حیرانی سے سوچا۔
“کیا یہ بیزاری اور چڑچڑا پن اکثر ہوتا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو کچھ اندازہ کہ کس وقت؟”
“جی ڈاکٹر، یہ کیفیت ہر ماہ ہوتی ہے اور اب تو میری ساس بھی کہہ اٹھتی ہیں کہ اسے یقیناً ماہواری آنے والی ہو گی، اسی لئے پاگل ہو رہی ہے”
“اف، پھر ماہواری”
دل ہی دل میں ہم مسکرا اٹھے۔
“آپ یہ بتائیے کہ یہ کیفیت ختم کب ہوتی ہے؟”
“جی ماہواری سے ایک ہفتہ پہلے یہ سب کچھ ہوتا ہے، پھر جونہی ماہواری آتی ہے، تو بہتر ہو جاتا ہے لیکن پھر ماہواری کی تکلیف گلے پڑ جاتی ہے۔ ماہواری کے بعد سات آٹھ دن بہتر گزرتے ہیں اور پھر سے وہی سب کچھ۔ لگتا ہے کہ ہر ماہ میں صرف وہی ایک ہفتہ جیتی ہوں جو ماہواری کے بعد آتا ہے”
وہ خاتون بہت نڈھال نظر آتی تھیں۔
ماہواری کی کتھا تو ہم پہلے ہی کہہ چکے، اب طوفان سے پہلے کا حال سن لیجیے۔
خاتون نے جس بیزاری، اکتاہٹ اور چڑچڑے پن کی داستان سنائی، وہ پری منسٹرول سنڈروم ( premenstrual syndrome- PMS ) کہلاتا ہے یعنی ماہواری آنے سے پہلے کی تکلیف۔
پی ایم ایس نوے فیصد عورتوں کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی معاملات پہ بری اثرانداز ہوتا ہے اور انہیں مختلف پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی علامات ماہواری سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے شروع ہوتی ہیں۔
پیٹ کا پھولنا، پیٹ میں درد، چھاتی میں اکڑاؤ، چہرے پہ مہاسے، کچھ خاص کھانے کی اشتہا، قبض یا اسہال، سر درد، تیز روشنی یا بلند آوازیں برداشت نہ کر پانا، تھکاوٹ ، اکتاہٹ اور بیزاری ،نیند میں کمی بیشی، اینگزائٹی، مایوسی، اداسی، غصہ، بے چینی اہم علامات ہیں۔
پی ایم ایس ہارمونز کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خواتین میں یہ اتار چڑھاؤ ہر مہینے اور ہر دن ہو رہا ہوتا ہے اور ان ہارمونز کے تحت جسم اور ذہن میں بھی ہر وقت اتھل پتھل مچ رہی ہوتی ہے۔ یہ ہارمونز ایک عورت کی زندگی جہنم بنانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
پانچ سے آٹھ فیصد عورتوں میں پی ایم ایس اس قدر شدید ہوتا ہے کہ انہیں خودکشی کا خیال آنے لگتا ہے۔ شدید غصہ اور چیخ و پکار، رونا دھونا، ہر مصروفیت سے لاتعلقی، بے خوابی، طبعیت میں شدید بیزاری اور چڑچڑاپن بھی پی ایم ایس کا حصہ تو ہے ہی لیکن اب یہ premenstrual dysphoric dysorder یا PMDD کہلاتا ہے کہ جذباتی اور ذہنی انتشار حد سے بڑھ جاتا ہے۔
ان دنوں میں خاتون کو ان علامات کے بنیادی علاج کے ساتھ اپنے گھر والوں کی سپورٹ کی بھی بے انتہا ضرورت ہوتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ علم کسے ہے کہ خاتون کس مشکل کا شکار ہے؟
ورزش ، مناسب غذا، پرسکون ماحول، آٹھ گھنٹے کی نیند، سڑیس سے اجتناب، اپنی دلچسپیوں کی آبیاری وہ بنیادی اصول ہیں جن پر چل کر پی ایم ایس کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن پی ایم ڈی ڈی کو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کبھی دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے گا کہ معاشرے کی کتنی عورتیں ان اصولوں پہ عمل پیرا ہونے کے وسائل یا اہلیت رکھتی ہیں۔ جہاں غربت و جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، جہاں پیٹ کی بھوک اور روٹی ہر روز کا مسئلہ ہو، جہاں عورت کو بات کرنے کی اجازت نہ ہو، جہاں اس کی حثیت سر جھکا کر حکم ماننے والوں کی سی ہو، جہاں انکار کی صورت میں فرشتوں کی پھٹکار سے ڈرایا جاتا ہو، وہاں کونسا پی ایم ایس اور کونسا پی ایم ڈی ڈی؟
عذرا عباس کی نظم مندی آنکھوں سے ہماری منتظر ہے، عورت کے جذبات کا آئینہ، عورت کے قلم سے!
جب بے زاری آتی ہے
بے زاری آتی ہے
میں سارے کام چھوڑ دیتی ہوں
کھانا، پینا حتی کہ نہانا بھی
میل لدے پر لدے میرے جسم پر
چڑھنے لگتا ہے
دل چاہتا ہے
کسی درخت کی
اونچی شاخ پر بیٹھ کر
لوگوں کو گزرتے دیکھوں
اور جب
وہ نیچے سے گزریں
ان کے سروں پر تھوکتی جاؤں
بے زاری یوں آتی ہے
جیسے بہت مضبوط ہاتھوں سے
مجھے کوئی نچوڑ رہا ہو
گول گول
پھر میں کھلنے لگتی ہوں
الگنی پر پھیلے کپڑوں کی طرح
بے زاری میرے گھٹنوں اور انگلیوں
کی پوروں میں گھس کر
مجھے چھیڑتی ہے
اور میرا دل چاہتا ہے
کہ میں چاروں ہاتھ پاؤں سے چلوں
اور بھونکنے لگوں
اور چلتے ہوئے راہ گیروں کو
کاٹ کھاؤں
یہ بیزاری چھین لیتی ہے
میری ہنسی
جو میں اپنی جیسی عورتوں میں بیٹھ کر
ہنستی ہوں
اور وہ رونا
جو میری جیسی عورتیں روتی ہیں
یہ بیزاری
مجھ سے چھین لیتی ہے
کولہے مٹکا مٹکا کر چلنا
جو میں دوسروں کو دیکھ کر
چلنا چاہتی ہوں
بس یہ چاہتی ہے
میں درخت کی کسی شاخ پر
بیٹھ کر آنے جانے والوں کے
سروں پر تھوکتی رہوں
اور گم سم رہوں
کسی کو نظر نہ آؤں
ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر میڈیکل کی کتابوں میں بیماریوں کے ساتھ شاعری لکھنے کی اجازت ہوتی تو ہم پی ایم ایس کا باب شروع ہونے سے پہلے یہ نظم لکھتے
شکریہ عذرا عباس، آپ نے بہت سی عورتوں کی ان کہی کو زبان دے دی!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر