رمیض حبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درابن روڈ ایک قدیمی گزرگاہ ہے اس کی ایک شاخ درہ زندہ افغانستان کی طرف جبکہ دوسری کوئٹہ کی طرف جاتی ہے اس مشہور قدیمی گزرگاہ سے ابن بطوطہ بھی گزرا تھا .
اس علاقے میں اللہ کے کئی نیک بندوں کے مزارات ہیں ان ہی نیک ہستیوں میں ایک مرد قلندر پیر پنجن شاہ کا مزار ہے
علاقائی روایات کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے ہند پر حملہ کرنے کیلئے یہی راستہ اختیار کیا۔ یہاں پر سلطان کی ملاقات پیر پنجن شاہ سے ہوئی اور سلطان نے پیر موصوف کو ہند پر حملہ کرنے کی ساری صورت حال سے آگاہ کیا کہ بارہا کوشش کے باوجود مجھے کامیابی نظر نہیں مل رہی جس پر سلطان نے اس ولی اللّٰہ سے دعا کی درخواست کی۔
جس کے جواب میں پیر صاحب نے سلطان کو فتح کی دعا دی اور کہا کہ اس حملہ میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے تمہیں کامیابی ملے گی اور تم سرخرو ہوں گے۔
دعا کے بعد جب سلطان نے پیر صاحب سے رخصت ہونے کی اجازت چاہی اور ان سے کہا کہ آپ کے لئے ہند سے کیا لے آوں.
تو پیر پنجن شاہ نے سلطان معظم محمود غزنوی سے کہا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں اس جہاد میں فتح سے ہمکنار کیا تو میرے لیئے دلی سے مٹی لیتے آنا وہاں پر بہت سے اولیاء دفن ہیں تاکہ میں اس مٹی سے یہاں مسجد بنا سکوں۔
اس بار اللہ تعالیٰ نے سلطان محمود کو کامیابی سے سرخرو کیا تو وہاں سے واپسی پر سلطان نے خچروں اور گھوروں کے ذریعے دہلی سے مٹی لیکر یہاں پر حاضر ہوئے یہ مٹی جب ایک جگہ اکٹھی کی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کا ایک ٹیلہ نما چھوٹا سا پہاڑ بن گیا
آپ کی دعاؤں سے سلطان محمود غزنوی کو ہند کے میدان جنگ میں فتح نصیب ہوئی جو فتح سلطان کے لئے درد سر بنی ہوئی تھی.
جس پر سلطان محمود غزنوی کو پیر پنجن شاہ نے ہمیشہ کیلئے ہند پر فتح کی دعا دی.
پیر صاحب نے دہلی والی مٹی سے پہلے پہل یہاں چھوٹی سی مسجد تعمیر کی .
مٹی کی مسجد ہونے کے باعث بارش کے دنوں میں نماز پڑھنے میں کافی دشواری پیش آتی تھی. علاقے کے لوگوں اس دہلی کی مٹی والی مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ نئی اور پکی مسجد تعمیر کی.
اور اس پہاڑ نما ٹیلہ کے اوپر پیر موصوف کی وصیت کے مطابق پیر پنجن شاہ کی آخری آرام گاہ بنائی گئی جو کہ ابھی بھی اسی حالت میں موجود ہے۔
درویش فقیر لوگ ہمیشہ ہی سے جنگل بیاباں پہاڑوں دریاؤں کے کنارے آبادی سے دور رہ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے فقیر لوگوں کی باتوں میں کوئی نہ کوئی راز ہوتا ضرور ہوتا تھا.
جیسا کہ حضرت پیر پنجن شاہ کا مزار ہے جو کہ زمین سے کوئی 20 فٹ بلندی پر ہے آپ کے مزار تک جانے کیلئے تقریباً ایک درجن سے زائد سیڑھیاں ہیں .یہ سیڑھیاں مٹی گارا سے تعمیر کی گئی ہیں.
اس بلندی کا راز زور دار بارش ہے جو پہاڑوں کا سلابی پانی اس علاقے میں سیلاب کی صورت میں جب اکھٹا ہو کر تباہی مچاتا ہے
پیر پنجن شاہ کافی بلندی پر ہے اس پر کھڑے ہو کر دور دور تک نظارہ کیا جا سکتا ہے بالخصوص مغرب کی طرف پہاڑی سلسلہ ہے اس پہاڑی سلسلے کی طرف درہ گومل ہے بارش ہونے کی صورت میں فضاء گرد سے پاک ہو جاتی ہے پہاڑ صاف دیکھائی دیتے ہیں. برسات کے بعد پہاڑوں کا نظارہ بھی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے.
آپ کی قبر مبارک پر پاؤں کے جانب ایک سوراخ اور چھوٹا سا پتھر بھی دیکھنے کو ملتا ہے. وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پتھر اگر کوئی انسان سانس روک کر ایک ہاتھ پر اٹھائے اور دل میں جو بھی مانگے تو وہ مراد پوری ہوتی ہے.
مزار کے چاروں طرف 4 فٹ دیوار بھی تعمیر کی گئ ہے. اوپر والی دیواریں کوئی پانچ فٹ اونچی ہیں یہ دیواریں بھی مٹی سے بنی ہے.
مزار کے قریب بہت سارے جھاڑیاں اور ایک پرانا سا قدیمی درخت بھی موجود ہے.
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی