حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ملر نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے قطر معاہدہ پر عمل نہ کیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔ طالبان نے جوابی طور پر کہا کہ قطر معاہدہ سے عملی طور پر انحراف کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
اس بیان بازی سے دوسری طرف امریکی پینٹاگون نے تصدیق کی کہ جون کے وسط تک 50فیصد امریکی فوجی افغانستان سے رخصت ہوچکے ہیں البتہ پینٹاگون کا یہ کہنا ہے کہ امریکی انخلا کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نیٹو کا ’’ریزولیوٹ سپورٹ مشن‘‘ بھی بند ہوجائے گا۔ 650 امریکی فوجیوں کی سفارتخانے کی حفاظت کے لئے موجودگی کی تصدیق کی گئی۔
پیناگون کو امریکی انخلا کے عمل کے دوران طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش ہے اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ 419افغان اضلاع میں سے 81اضلاع پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔ پینٹاگون نے ان 16اضلاع کا ذکر نہیں کیا جن پر افغان سکیورٹی فورسز نے مقامی آبادی کے تعاون سے دوبارہ قبضہ کیا۔
جوبائیڈن کی انخلا کے حوالے سے ڈیڈلائن 11ستمبر ہے۔ امریکی حکام اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ سفارتکاروں کی حفاظت کے ساتھ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت میں معاونت پر مامور فوجی انخلا کے عمل کا حصہ نہیں ہوں گے۔
معروف صحافی وسی بابا نے ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے اپنے بلاگ میں لکھا ’’افغان طالبان کو اگر کامیابی ملتی بھی ہے تو وہ پاکستان سے نہیں جائیں گے‘‘۔ ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ ’’وہ ہم پر نظر بھی رکھیں گے اور ہمیں سیدھی راہ پر بھی چلاتے رہیں گے‘‘۔
’’دی ڈپلومیٹ‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ا فغان منظرنامے کے حوالے سے جو لکھا وہ دلچسپ ہے کچھ باتیں تلخ اور انکشافات کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ ان دونوں کا جواب بہرطور ہمارے دفتر خارجہ کو دینا چاہیے۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جیسے سوویت امریکہ جنگ کے اختتام پر جنیوا معاہدہ کے بعد پتلی گلی سے نکلا تھا اب بھی اس کی سوچ تقریباً وہی ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے ترکی نیٹو کے ساتھ مل کر ’’ریزولیوٹ سپورٹ مشن‘‘ کو چلائے گا لیکن کیا کرد اور بعض دوسرے مقامی و علاقائی مسائل سے دوچار ترکی کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ افغانستان میں ’’کردار سنبھالے‘‘؟
افغانستان میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ قندوز میں طالبان اور سکیورٹی فورسز کی لڑائی میں 5ہزار خاندان بے گھر ہوئے اگر لڑائی کا دائرہ وسیع ہوا تو یقیناً بے گھر افراد کی تعداد بڑھے گی اس صورت میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
اس حوالے سے ایک اطلاع تو تہران سے ہے، ایرانی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے حکام تصدیق کررہے ہیں کہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی چوکیوں پر حفاظتی عملے کی تعداد بڑھادی گئی ہے ایران کسی ہنگامی صورتحال میں مہاجرین کو قبول نہیں کرے گا۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کی بھی تقریباً یہی پالیسی ہوگی لے دے کر قربانی کا بکرا پاکستان بنے گا۔
ایسی صورت میں ہماری پالیسی کیا ہوگی، وزارت خارجہ اس پر خاموش ہے۔ اصولی طور پر دوٹوک انداز میں وزارت خارجہ کو نئے مہاجرین کے حوالے سے موقف واضح کرنا چاہیے۔ پاکستان پر پہلے ہی افغان مہاجرین کا بوجھ بہت زیادہ ہے ان کی وجہ سے ہمارا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے لیکن کیا دفتر خارجہ افغان پالیسی کے تاجروں سے زیادہ بااختیار ہے؟ یہ سوال غور طلب ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان جن سنگین مسائل سے دوچار ہے یہ نئے مہاجرین کی میزبانی کے مانع ہیں۔ بہرطور صورت جو بھی ہو وضاحت اور حکمت عملی دونوں میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
قندوز میں مہاجرین کے محکمہ کے مقامی سربراہ غلام سخی رسول کے مطابق صورتحال بہتر نہیں ہے پانچ ہزار خاندان بے گھر ہوئے ان میں سے 2ہزار کابل کی طرف ہجرت کرگئے۔ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان مختلف مقامات پر جاری لڑائیوں سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ تاثر دے رہا ہے کہ افغان حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کو امریکی ذرائع پر سوفیصد اعتماد اور خبروں کو آگے بڑھانے کی بجائے اطلاعات کے دوسرے ذرائع استعمال کرنا ہوں گے۔
کابل یونیورسٹی کے ایک سابق استاد عبدالعلی واحد کہتے ہیں ’’ہمارے پڑوسیوں اور خود عالمی امن کے ذمہ داروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس ووٹ کی اہمیت دنیا میں مسلمہ ہے افغانستان میں اس ووٹ پر بندوق کو بطور طاقت کیوں تسلیم کیا جارہا ہے۔ کیا بندوق کی طاقت نے ماضی بعید اور قریب میں افغانستان کو جو زخم لگائے وہ کافی نہیں‘‘۔
عبدالعلی واحد پہلے شخص نہیں جو ووٹ اور عوام کے حق حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ افغانوں کی نئی نسل لسانی و علاقائی اکائیوں کے امتیاز سے بالاتر ہوکر تقریباً یہی بات کرتی ہے ان کے سوالات میں تلخی کا برا نہیں منایا جانا چاہیے۔ جو ملک 40سالوں سے بارود کھا اور پی رہا ہو، جنازے اٹھا اور دہشت گردی دیکھ رہا ہوں اس ملک کے لوگوں کے تحفظات غور طلب ہیں۔
ہمارے ذمہ داران کو بھی اس شوق کاروبار اور عشق طالبانیت سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ خود ہم بھی گزری دہائیوں جیسے حالات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ افغان پالیسی پر غوروفکر کے لئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر بات کی جاتی۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں چونکہ اس کا رواج نہیں اس لئے جب مسائل گلے پڑتے ہیں تو ڈنگ ٹپاو پالیسیاں وضع کرلی جاتی ہیں ان سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے افغان پالیسی کے حوالے سے بہت ساری اہم باتیں کی ہیں ہم اگلے کالم میں اس پر بھی بات کریں گے فی الوقت یہ کہ حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے ہمارے اور آپ کے لئے یہی ملک (پاکستان) ہی سب کچھ ہے اس لئے ضروری ہے کہ پرائے جھگڑوں کی تپش سے ہمارا ماحول خراب نہ ہونے پائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر