ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں جتنے حکمران بھی آۓ ہیں عوام کے ساتھ ایسا فریب اور سنہری ہاتھ کسی نے نہیں کیا جیسا موجودہ حکومت انتہائی کامیابی اور ڈٹھائی سے کیے جا رہی ہے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ معیشت بہت پھل پھول رہی ہے جبکہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ ملک کی اقتصادی جڑوں کو تیزاب سے سیراب کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں عبرتناک اور شرمناک انجام ہماری معیشت کا مقدر بن چکا ہے خاکسار کی نظر میں معیشت کو سمجھنا کوئی بہت مشکل کام یا راکٹ سائنس نہیں صرف تین چیزوں سے معیشت کی ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اوّل GDP گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ یعنی ( مجموعی ملکی پیداوار ) GDP کی ایک لائن میں تشریح کچھ یوں ہے کہ ملک نے ایک مالی سال میں کتنا منافع کمایا ہے GDP میں کمائی جانے والی رقم میں سے اخراجات نکال کر صرف منافع والی رقم دکھائی جاتی ہے
دوئم کیا ملک میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں سوئم کیا ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے اگر یہ تین اشاریے مثبت اور درست سمت جارہے ہیں تو آپ کے ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے ورنہ حکومت اور حکومتی وزرا چینلز پر آکر جتنے مرضی بلند بانگ دعوے کرتے رہیں سب سیراب ہے
قارئین حضرات جب سے حالیہ بجٹ پیش ہوا ہے حکومت اور حکومتی گلوکار پھولے نہیں سما رہے کہ ہم نے ایسا عوام دوست اور ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی حکومت نے پیش نہیں کیا مگر خاکسار کی راۓ کے مطابق اس عوام دشمن بجٹ کے آفٹر شاکس آنا شروع ہوگۓ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ صرف پندرہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً چھ روپے اضافہ ہو چکا ہے اور مزید تیس سے چالیس روپے اضافے کا امکان ہے صرف پٹرول ہی نہیں اشیا خوردونوش کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں ڈالر بھی ایک سو ترپن سے ایک سو ساٹھ کے قریب جا پہنچا ہے معیشت دان یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا سونامی آرہا ہے جو غریب اور مفلس لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گا تبدیلی سرکار کی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی اور بے روز گاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے دعویداروں نے کئی لاکھ لوگ بےروزگار اور ناجائز تجاوزات کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کے سروں سے چھت چھین لی ہے صرف یہی نہیں کسانوں مزدوروں مجبوروں کیلۓ سوکھی روٹی کا نوالہ بھی چلغوزہ بنا کر رکھ دیا ہے دال روٹی کے چکر اور بلوں کی بمباری نے عوام کی دور اور نذدیک کی نظر کمزور کر دی ہے بھوک اور بے روز گاری کا یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ گلی محلوں اور بستیوں میں فاقوں کے ڈسپلے جاری ہیں غریب لاچار اور مجبور لوگ فاقوں کی پلی بارگین کا فارمولا پوچھ رہے ہیں آیہ روز عوام کے سروں پر آٹاایٹم اور بجلی بم پھوڑے جا رہے ہیں دودھ کے کال سے نونہال بلک بلک اور سسک سسک کر وقت نزع کا انتظار کر رہے ہیں پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کو پٹرول بطور پرفیوم استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ چکی ہیں ہر نۓ دن بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے لوگ خودسوزیاں کر رہے ہیں اپنے بچوں سمیت دریاؤں اور سمندروں میں چھلانگیں لگا رہے ہیں تو کبھی بچوں کو بھوک کی وجہ سے بلکتااور سسکتا دیکھ کر دہکتے تندوروں میں پھینک رہے ہیں مہنگائی سے مجبور لوگ روٹی کے ایک نوالے کیلۓ اپنے گردے اور آنکھیں بیچنے پر مجبور ہیں اپنی کم سن بچیاں دلالوں کے حوالے کر دیتے ہیں اپنے بچوں کو عیدوں پر چیزیں نہ دلوا سکنے پر ان کے گلے کاٹ دیتے ہیں مگر حکومت اور حکومتی وزرا سب اچھا ہے کی گردان الانپ رہے ہیں
اگر مہنگائی اور بے روز گاری کا طوفان نہ تھما اور حالات یونہی رہے تو لوگ غدر کی حشرسامانیاں بھول جائیں گے ابھی تو لوگوں کے انسو نکل رہے ہیں اگر توجہ نہ دی گئی تو آنسو خشک اور پھر خون کے آنسوؤں کی نوبت آجاۓ گی اور جب خون کے آنسو بھی ختم ہو گۓ توپھر آنکھیں بنجر اور بے نور ہونے لگیں گی تبدیلی سرکار سے درخواست ہے کہ خداراہ ڈرو اس دن سے جس دن مہنگائی بے روز گاری اور آپ کے پیدا کردہ حالات سے ستاۓ لوگوں کے ہاتھ آپ کے محلات ایوانوں اور گریبانوں تک پہنچ جائیں یہ کٹھ پتلی تماشہ بننے اور بنانے کا کھیل ختم کرو احتساب کا جھوٹا ناٹک بند کرو وزارتوں میں بیٹھے نااہل وزرا سے عوام کی جان خلاصی کرواؤ ہوش مندی اور حکمت سے کام لیں اور عوام کے حقیقی نمائندے بن کر عوامی مسائل غربت مہنگائی بےروز گاری اور غیر یقینی صورت حال پر توجہ دیں اور عوام کو بہتر سے بہتر ریلیف مہیا کریں
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی