حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ہمارے یہاں ’’عشقِ طالبانیت‘‘ پھر سے انگڑائیاں لے رہا ہے دروس ہورہے ہیں۔ دعوت جہاد اور جہاد کی فضیلتیں بیان ہورہی ہیں۔ طالبانیت کے عشق میں سرشار یہ بھول گئے کہ ستر ہزار پاکستانی کس جنگ کا رزق ہوئے تھے۔ ایک پچھلے کالم میں افغان پالیسی کا رزق ہوئے لوگوں کی تعداد حساب کے ساتھ لکھی تھی۔ ایک مختصر ای میل موصول ہوئی۔ ارشاد ہوا
’’ تم جیسے اسلام کے دشمن یہیں جلتے مرتے رہ جائیں گے حق کو غالب آکر رہنا ہے یہی اللہ کا وعدہ ہے‘‘۔
کیا حق صرف طالبانیت ہے؟ سادہ سا سوال کس سے کیا جائے۔ زندگی کے جھمیلے اور بہت ہیں موضوعات بھی۔ فی الوقت ہم اسی پر بات کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم افغانستان کی جغرافیائی حدود میں پلنے والی نفرتوں کے سودوں کا بازار پھر سے اپنے ہاں کیوں لگوانا چاہتے ہیں؟
افغان اقتداراعلیٰ کا فیصلہ کرنا افغان عوام کا حق ہے انہیں فیصلہ کرنے دیجئے۔ طالبان کے خلاف مزاحمت ہوتی ہے یا نہیں ان افغانوں کا داخلی معاملہ ہے۔ افغان پالیسی اور طالبانیت ہر دو سے ہزاروں لوگوں کا رزق بندھا ہوا ہے۔ یہ تاجران پھر سے ہمارے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
مسائل کیسے ہوں گے، ذرا چند دن قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو کو یاد کیجئے۔ جناب شیخ فرمارہے تھے
’’اسلام آباد کے گردونواح میں طالبان کے لوگ مقیم ہیں۔ ان کے کاروبار ہیں دوسرے مفادات، زخمی اور نعشیں تک یہاں آتی ہیں‘‘۔ ادب سے عرض کروں یہ سچ ہے بلکہ یہی سچ ہے۔ تو پھر ہم انسداد دہشت گردی کی جنگ میں جھک مارتے رہے 9/11سے اب تک؟
معاف کیجئے گا سستی حب الوطنی مرغوب نہیں ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی فکر کرنا ہوگی۔ لگتا یہی ہے کہ کاروباری مفادات آج اور مستقبل کی ضرورتوں پر حاوی ہیں۔ طالبان کے بڑے اور سہولت کار صرف بارہ کہو، روات اور دیگر علاقوں میں ہی نہیں، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ان کے کاروبار ہیں۔ کس قانون کے تحت یہ قیام گاہیں اور کاروبار ان کی ملکیت ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر شہری دستاویزات فراہم کرنے والے اداروں نے ’’حُبِ دنیا‘‘ کی بجائے فرائض پر توجہ دی ہوتی تہ یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ غیر مقامیوں کو جعلی دستاویزات بنواکر دینے والوں میں سبھی شامل ہیں ان سبھی میں کون کون شامل ہے اس کی پردہ پوشی ممکن نہیں۔
ہمارے دین دار، قوم پرست، جمہوریت پسند اور آبپارہ پسند سبھی نے ’’مسلم ہیں تو سارا جہاں ہمارا‘‘ کی سوچ کوا پنے اپنے انداز میں پروان چڑھایا۔ افغان جہاد (سوویت امریکہ جنگ اور اولین خانہ جنگی کا زمانہ) کے دوران بننے والے مدارس کے متاثرین کی کم از کم دو نسلیں تو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں یہی ہمدرد و معاون ہیں طالبانیت کے، یہی تلخ ترین حقیقت ہے۔
افغان مہاجرین کے حوالے سے جب بھی اقوام متحدہ کے قوانین برائے مہاجرین پر عمل کی کسی طرف سے بات ہوئی دین داراورقوم پرست دونوں آستینیں چڑھائے میدان میں اتر آئے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
شیخ رشید کا یہ کہنا کہ طالبان کے لوگوں کی قیام گاہیں کاروبار اور قبرستان تک تو ہمارے ہاں ہیں، نیا انکشاف ہرگز نہیں۔ البتہ اس دوغلی پالیسی سے اس وقت پردہ اٹھا تھا جب چند برس قبل حقانی گروپ کے بڑوں کا ایک نوجوان خاتون کے چکر میں بارہ کہو میں قتل ہوا۔
اس خبر نے سب کو چونکادیا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ کیا کس نے انہیں یہاں سے رخصت کرنے کا بندوبست کیا؟
جی نہیں ہمارے یہاں پشتون ولی اور اسلام ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دونوں موقع بہ موقع ایک دوسرے کو سہارا بھی دیتے ہیں۔
افغانستان کے اندر سب ویسا نہیں ہے جیسے ہمارے اسلام پسند دوست پیش کررہے ہیں۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ طالبان ایک قوت ہیں لیکن اور قوتیں بھی موجود ہیں البتہ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگا کہ طالبان کے لئے اب کابل فتح کرنا اتنا آسان نہیں جتنا ماضی میں تھا، مزاحمت ہوگی۔ امریکی خفیہ ادارے کہتے ہیں چھ ماہ لگیں گے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے میں۔ افغانستان میں طالبان مخالف طبقات کہتے ہیں کہ اگر پڑوسی ممالک طالبان کی پشت بانی نہ کریں تو مزاحمت طویل ہوسکتی ہے۔
اس ساری صورتحال کے بیچوں بیچ ایک خبر یہ آئی کہ ایک ایرانی رہنما نے افغان ہزارہ قبیلے سے کہا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ نہ بنیں۔ خبر درست ہے یا غلط، تردیدو تصدیق ایرانی حکام کرسکتے ہیں لیکن یہاں پاکستان کے جذباتی انقلابی کہہ رہے ہیں ’’العربیہ‘‘ خبر مستند نہیں۔ اس وکالت کو کیا نام دیا جائے۔ ان انقلابیوں کو کون سمجھائے کہ ایران نے تو ہزارہ افغانوں (ہزارہ قبیلہ) کے ایک قاتل گلبدین حکمت یار کو بھی طویل مدت تک پناہ دیئے رکھی تھی۔
مملکتیں اپنی پالیسیاں عقیدوں پر نہیں مفادات پر بناتی ہیں۔ دنیا میں فقط ہم ہی بدقسمت ہیں کہ ہماری ریاست امریکہ اور جہادی تجارت کو ہی پالیسی سازی کی روح سمجھتی ہے اور لوگ عقیدوں کی زنجیریں پہنے اپنے سماجی مفادات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ پھر ایک وقت میں دونوں مل کر روتے بھی ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پالیسی سازوں اور عقیدہ فروشوں دونوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہمیں اپنے ملکی مفادات اور سماجی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ طالبان کسی کے سگے نہیں، وہ اپنے ملک میں اپنے دور اقتدار کے دوران اپنی مخصوص فہم سے مختلف مسلمان طبقات اور غیرمسلم افغان اکائیوں کے ساتھ جو برتائو کرتے رہے وہ کل کی بات ہے۔
غیر مسلموں کے لئے تو انہوں نے مخصوص لباس پہننے کا حکم جاری کردیا تھا۔
یہاں ایک اور بات بھی عرض کردوں ’’اگر ہمارے پالیسی ساز گرے لسٹ سے نکلنا چاہتے ہیں (یاد رکھیئے ’’اگر‘‘ عرض کیا ہے) تو پھر افغان پالیسی اور طالبان نوازی ہر دو کو ریویو کرنا ہوگا۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ افغانستان کے مذہبی و غیرمذہبی وار لارڈز کی اقامت گاہیں اور کاروبار بھی یہاں ہوں اور ہم یہ سمجھیں کہ دنیا کچھ نہیں جانتی۔
مکرر عرض ہے کہ طالبان کے لئے چندہ مہم اور افرادی قوت کی فراہمی کی مقامی دعوتوں کا نوٹس لینا ہوگا۔ بڑھکیں مارنے کی بجائے عملی اقدامات کیجئے تاکہ طالبان اور ان کے مخالفین کی جنگ ہمارے صحن تک نہ آئے، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیا ستر ہزار پاکستانی مروانے والے بااختیار لوگ اس امر کو مدنظر رکھنے کی زحمت کریں گے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر