نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کا ادھار||حیدر جاوید سید

سیاسیات و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ اس دور کی آزادانہ تاریخ نہیں لکھی گئی کچھ لوگوں نے جستہ جستہ کچھ کچھ تذکرے ضرور کئے ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
پانچ جولائی کے حوالے کالم پانچ جولائی کو ہی شائع ہونا چاہئے تھا۔ کچھ مصروفیات تھیں تھوڑی سی علالت بھی ‘ چلیں تاریخ کا ادھار چھ جولائی کو ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ شب سرائیکی وسیب کے ممتاز قانون دان اور قوم پرست رہنما اکبر انصاری ایڈووکیٹ کہہ رہے تھے ” اس ملک کی مظلوم قومیتوں کے لئے ہردن پانچ جولائی ہی رہے گا جب تک انہیں آئین میں دیئے گئے بنیادی شہری ‘ سیاسی ‘ معاشی اور شناختی حقوق نہیں مل جاتے ۔
اکبر انصاری درست کہتے ہیں لیکن اس کا کیا کریں کہ اس ملک میں دستور کو دستور میں لکھے حقوق میسر نہیں۔ تشکیل پانے کے بعد سے اب تک دستور کے ساتھ کیا نہیں ہوا۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جو دستور اپنے خالق کونہیں بچا سکا اس سے کتنی توقعات رکھی جائیں؟
پھر بھی جیسا اور جہاں بھی ہے ایک دستور موجود ہے یہی ہمارے اکٹھے رہنے کی ضمانت ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دستور کی کتاب کو عصری تقاضوں کے مطابق بنانے کے لئے ترامیم ہوتی رہتی ہیں شاید اس لئے سرائیکی قوم پرستوں کا یہ دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ اس دستور کی چھترچھایہ میں ہی سہی نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔
عمرانی معاہدہ کی بنیاد یہ ہو کہ یہ پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے ۔ فوری طور پر تو اس مطالبہ کی پزیرائی ممکن نہیں لگتی پھر بھی ان کی سنی جانی چاہئے ، پیپلز پارٹی اور اے این پی کو سرائیکی قوم پرستوں سے بات کر کے ان کی آواز پارلیمان تک پہچانی ہوگی
آپ پوچھیں گے کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ صاف سیدھی وجہ ہے نون لیگ سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے کا سازشی ایجنڈا لئے ہوئے ہے ۔ پی ٹی آئی کے نمائشی اقدامات بہت ہیں مگر وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ سرائیکی صوبہ قومی سوال پر بنناچاہئے ۔
قومی سوال کا مطلب ہے تقسیم شدہ سرائیکی وسیب کو یکجا کرنا ۔
تمہیدی سطور طویل ہوئیں۔ ہمیں پانچ جولائی پر بات کرنا تھی بلکہ بات کرتے ہیں۔ پانچ جولائی1977ء کی شب ملک کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر تیسری بار مارشل لاء لگایا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار گیارہ سال ایک ماہ اور چنددن چلا۔ انہوں نے بہت سارے تجربات کئے ۔ آئین مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی معطل ہو چکا تھا۔ نوے دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ برف پر لکھا ثابت ہوا غیر جماعتی بلدیاتی نظام کے اولین تجربے میں”عوام دوست” کی شناخت سے الیکشن لڑنے والوں نے حکومت کی مت مار دی۔
پھر ڈپٹی کمشنروں اور ایس پی صاحبان کی معرفت بلدیاتی اداروں کی اس طرح تشکیل ہوئی کہ عوام دوستوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیلی کر دیا گیا ۔ یہ کیسے ہوا؟ ۔
ہم اور آپ سب جانتے ہیں ماضی قریب میں قومی سطح پر دو تجربے ہوئے ایک جنرل مشرف کے دور میں اور دوسرا ہمارے محبوب لالہ جی نے کیا۔
پانچ جولائی کا آسیب اب بھی ہماری جان نہیں چھوڑ رہا 45سال بیت گئے اس کے بعد بھی ایک بار ہم فوجی حکومت بھگت چکے وہی پرویز مشرف والی ۔
پانچ جولائی نے روشن خیال اور صاف ستھرے پاکستانی سماج کے چہرے پر جوکالک ملی وہ اب تک اتر نہیں پائی ۔
تیسرے مارشل لاء کے دور میں ہزاروں سیاسی کارکنوں ‘ ادیبوں ‘ دانشوروں اور صحافیوں کو قید و بند کی سزائیں ہوئیں۔ مارشل لائی عدالتوں نے ہزاروں کارکنوں کو کوڑے لگوائے متعدد صحافیوں کو بھی کوڑے مارے گئے ۔
پانچ جولائی نے پا کستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفیٰ کی کوکھ سے جنم لیاتھا۔
یہ تحریک مقامی اور عالمی سہولت کاروں کے تعاون و سرپرستی میں چلائی گئی تھی۔ جنرل ضیا کی اس گیارہ سالہ حکومت کے بہت نقصانات ہوئے اہم ترین نقصان یہ ہوا کہ فرقہ پسندی کا بھوت ناچنے لگا بلکہ اب تک ناچ ہی رہا ہے جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے قبل سماجی وحدت کا جو حُسن تھا وہ ختم ہوا۔
پچھلے 45 برسوں سے جب بھی پانج جولائی کا دن آتا ہے قلم مزدور کو ان دوستوں اور پیاروں کی یاد بھی ستانے لگتی ہیں جنہوں نے بحالی جمہوریت کے لئے گریبانوں کا پرچم بنایا اور شخصی آمریت سے جا ٹکرائے ۔
ان جمہوریت پرستوں میں سبھی شامل تھے بلوچ ‘ سندھی ‘ سرائیکی ‘ پنجابی ‘ پشتون ‘ اردو بولنے والے تھانوں ‘ جیلوں اور تشدد کے مخصوص مراکز میں جنہیں تفتیشی مقامات کہاجاتا تھا سیاسی کارکنوں پر بے رحمانہ تشدد ہوا جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف ہوئی مزاحمت ہماری سیاسی تاریخ کا شاندار اور قابل فخر حصہ ہے
یہ مارشل لاء نابغہ عصر ذوالفقار علی بھٹو کو نگل گیا۔ قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں بھٹو پھانسی چڑھے ۔ پی ٹی وی نے ظلم کی داستانوں کی درجنوں اقساط نشر کیں ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ بولا گیا
سیاسیات و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ اس دور کی آزادانہ تاریخ نہیں لکھی گئی کچھ لوگوں نے جستہ جستہ کچھ کچھ تذکرے ضرور کئے ۔
پیپلز پارٹی کے دوسرے دور اقتدار(محترمہ بے نظیر بھٹو والے) میں عرض کیا تھا کہ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف ہوئی مزاحمت کی تاریخ لکھوائیں وعدے ہوئے پر افسوس عمل نہ ہو سکا ۔
ہم اگر صاف سیدھی بات کہیں تو وہ یہ ہے کہ پانچ جولائی 1977ء اب بھی ہماری جان نہیں چھوڑ رہا اس کے کریا کرم کا واحد طریقے یہی ہے کہ سماجی وحدت کے اس حُسن کو دوبارہ سے زندگی کی روشنی بتایا جائے جو پانچ جولائی 1977 سے قبل تھی
یعنی ہم ایک دوسرے سے فرقوں اور ذاتوں کی بنیاد پر نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ بحیثیت انسان محبت کرتے تھے
پانج جولائی نے سب سے بڑا ظلم یہ ڈھایا کہ آدمیوں کے جنگل کو دولے شاہی چوہوں سے بھر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author