دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست بازی نہیں حکمت و آگاہی||رسول بخش رئیس

ہمارے مسائل کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کوئی ایک جماعت یا اس کے چند اتحادی اپنے طور پر زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ جن چند خطرات کی نشان دہی کی ہے‘ قابلِ توجہ ہیں‘ سب کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاست بازی نہیں حکمت و آگاہی کام آئے گی۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارد گرد اور ملک کے اندر کے خطرات کا تاریک سایہ گھنا اور وسعت پذیر نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی‘ لاہور میں دھماکا اور افغانستان کے اندر سے سرحد پر تعینات فوجی محافظوں پر فائرنگ کے واقعات ایک حکمتِ عملی سے جڑے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آج کی دنیا میں سرحدوں پہ جنگیں نہیں‘ ملکوں کے اندر لڑی جاتی ہیں۔ یہ پرانی تزویراتی کہانی ہے‘ جس نے بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں جنم لیا تھا۔ اسلحہ کی دوڑ‘ سمندروں میں تیرتے بحری بیڑے‘ آسمانوں میں گھومتے پھرتے سیارے اور جوہری ہتھیاروں نے جب طاقت کا توازن قائم کر دیا تو حریف کو اندر سے غیر مستحکم کرنے کے حربے استعمال ہونے لگے۔ امریکہ نے تو اس میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ اپنی ثقافت‘ ترقی اور معیارِ زندگی کا پرچار اور سوویت یونین میں جمود‘ فاقوں اور اشیا کی کمیابی کے علاوہ وہاں کی وقت میں جمی قیادت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور آزادیوں کے فقدان کے قصے تواتر سے پھیلائے گئے۔ سرد جنگ کی تاریخ کو صرف تزویراتی حوالوں سے دیکھنے سے مکمل تصویر ہمارے سامنے نہیں آ سکتی۔ امریکہ اور مغربی یورپ اور ان کے دیگر حلیفوں نے سرد جنگ ثقافتی برتری اور انفرادی آزادی کے زور پہ جیتی۔ اندر سے کسی ملک کو کیسے غیر مستحکم کرنا ہے‘ یہ اس کے معروضی حالات پر منحصر ہے۔ سیاسی اور سماجی تقسیم‘ ٹکرائو اور مذہبی تنائو تو ہمارے ہاں ہمیشہ سے گھن کی طرح رہا ہے۔ باہر کی طاقتیں ان اندرونی کمزوریوں کو ہوا دیتی ہیں۔ جتھے معتبر حلقوں کے اندر سے ہی تیار کئے جاتے ہیں۔ ان کی جیبیں گرم کرکے ان کے ذریعے کشیدگی پیدا کرائی جاتی ہے۔ یہ کوئی افسانوی باتیں نہیں‘ ہماری تاریخ کی تلخ حقیقتیں ہیں۔ شماریات‘ شواہد اور آئے دن لاشیں اٹھانے کے اندوہناک مناظر آپ کے سامنے ہیں۔ کراچی‘ بلوچستان اور سرحدی علاقوں سے کئی چہرے آنکھوں میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کن طاقتوں کے کارندے رہے‘ کہاں کہاں بحفاظت زندگیاں گزار رہے ہیں۔ بے شعور عوام میں جب دوست اور دشمن کی پہچان نہ رہے تو ایسے المیوں کا بار بار سامنا کرنا کوئی اچنبھے کی بات محسوس نہیں ہوتی۔
کسی کو معلوم نہیں کہ افغانستان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے‘ افغانوں نے جنگیں ہی دیکھی ہیں۔ عصرِ حاضر کی دو بڑی طاقتوں نے مجموعی طور پر تیس سال اس چھوٹے سے ملک کے خلاف تباہ کن جنگیں کی ہیں‘ عجیب بات ہے کہ دونوں نے اپنی پسند کی ریاست‘ قوم اور ایک سیاسی نظام تشکیل دینے کیلئے۔ ایک طاقت اسے اشتراکیت کے رنگ میں رنگنے پر مُصر تھی تو دوسری اسے جمہوریت اور آئینی حکومت کا لبادہ پہنانا چاہتی تھی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر نکلیں۔ بیس سال جنگ کرنے کے بعد امریکہ کا انخلا اب آخری مرحلوں میں ہے۔ یہ معاملہ طویل جنگ جیتنے یا ہارنے کا نہیں‘ ایسی لڑائیوں میں جہاں ہر نوع کا جدید ترین اسلحہ استعمال ہو‘ سب برباد ہو جاتے ہیں۔ مغربی حلقوں کا اندازہ یہ ہے کہ اب تک دو لاکھ افغان مارے جا چکے ہیں‘ جبکہ بیرونی فوجوں کا نقصان چند ہزار ہی بتایا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بیرونی جنگوں سے اندر کا سماجی اور سیاسی توازن بگڑ جاتا ہے‘ ریاستی اداروں کی مخالف طاقتوں کے اثر سے تعمیر شک سے دیکھی جاتی ہے‘ اور افغانستان میں تو مداخلت کار طاقتوں کی پسپائی مجاہدین اور طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ مجموعی طور پر وہ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جانی قربانیاں دے چکے ہیں۔ اب بھی آپ دیکھیں‘ کیسے طالبان ایک کے بعد ایک ضلع اور صوبے پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔ خانہ جنگی کے اثرات نمایاں ہیں۔ افغانستان کی امریکہ کے زیرِ اثر فوج ابھی تک لڑنے پہ آمادہ ہے‘ شمالی اور وسطی افغانستان کی لسانی قوتیں دوبارہ سے اپنے آپ کو داخلی جنگ کیلئے تیار کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے طالبان کے مخالف ممالک ماضی کی طرح ان کی امداد میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے‘ لیکن اس وقت جو صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے‘ کرشمہ ہی ہو گا کہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے مابین کوئی جنگ بندی ہو جائے اور امن معاہدہ طے پا جائے۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہماری مخالف ریاستیں طالبان کی ابھرتی ہوئی طاقت کے پیچھے ہمارا ہاتھ دیکھیں گی۔ امریکہ ہو یا مغرب کے ذرائع ابلاغ کے ادارے‘ وہ تو دہائیوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی شکست کی وجہ پاکستان ہے۔ کابل انتظامیہ کے کل پُرزے بھی سارا ملبہ ہمارے اوپر ہی ڈال رہے ہیں اور دھمکیاں نہیں بلکہ وہ عملاً ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ کئی دہشت گرد ٹولے ہزاروں کی تعداد میں ان کی پناہ میں ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں۔ یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین‘ جن کے ساتھ ہمارا بہت پُرانا دوستی کا رشتہ ہے اور تجارت اور معاشی امداد کے اعتبار سے بہت بڑا ذریعہ بھی‘ دبائو بڑھائے جا رہے ہیں کہ اب فیصلہ کر لو‘ ہمارے ساتھ ہو یا چین کے ساتھ۔ سرد جنگ کے دنوں میں بھی یہی دبائو تھاکہ جلد بتائو‘ عالمی تقسیم میں کس دھڑے کے ساتھ ہو؟ ہمیں توازن کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری دفاعی اور خارجہ پالیسی کے علاوہ موجودہ حکومت کیلئے بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ کیسے چین کے ساتھ تعاون جاری رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ روایتی دوستی قائم رکھتے ہیں۔ بصیرت‘ تدبر اور دور بینی کی ضرورت ہے۔
ان خطرات کے پیشِ نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین مل کر بیٹھیں‘ مشاورت کریں‘ اور کم از کم تین شعبوں میں اتفاق رائے پیدا کریں۔ ویسے تو ہر میدان میں اس کی ضرورت ہے مگر ذاتی رنجشیں‘ باہمی منافرت اور تنائو میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ مل بیٹھنا ہی اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ دفاع اور خارجہ پالیسی‘ دہشت گردی اور بنیادی اقتصادی اصلاحات کلیدی اہمیت کے حامل معاملات ہیں۔ ہمارے ریاستی اداروں‘ حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو ایک قومی سوچ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست بازی بہت ہو چکی‘ بڑی سیاسی دکانیں تو اپنا دھندا کرتی رہیں لیکن ریاست کمزور ہوتی گئی‘ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے اور خطرات میں اضافہ ہوتا رہا۔
اب بھی وقت ہے‘ ابھی مہلت ہے‘ کوشش کریں تو متفقہ قومی حکمت عملی ان شعبوں میں تشکیل پا سکتی ہے۔ ریاست اور قوم‘ دونوں مضبوط نظر آئیں گی‘ عوام بھی ساتھ دیں گے اور ہم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر آپ کے ذہن میں تحفظات ہیں تو وہ بجا ہیں کہ معروضی حالات ہی ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جب پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں اور دیگر زعما کو سلامتی کے اداروں نے خطرات کے بارے میں بریفنگ دی تو وزیر اعظم عمران خان شامل نہ ہوئے۔ جو عذر پیش کئے جا رہے ہیں‘ دل کو نہیں لگ رہے۔ اگر کوئی ایسا پیغام قائدِ حزبِ اختلاف کی طرف سے گیا بھی تھا کہ وہ عمران خان کی موجودگی میں شرکت نہیں کریں گے‘ تب بھی خان صاحب کی موجودگی ضروری تھی‘ وہ نہ بھی آتے تو دیگر جماعتوں کے نمائندے تو موجود ہوتے۔ ویسے انہوں نے ایسی دھمکی دینے کی نفی کی ہے۔ احتساب کے بارے میں بھی ہر جماعت غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کی خواہشمند دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح نجکاری اور بجلی کی پیداوار‘ ترسیل اور تقسیم میں بھی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مسائل کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کوئی ایک جماعت یا اس کے چند اتحادی اپنے طور پر زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ جن چند خطرات کی نشان دہی کی ہے‘ قابلِ توجہ ہیں‘ سب کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاست بازی نہیں حکمت و آگاہی کام آئے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author