محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغان طالبان کے حوالے سے موجود مغالطوں میں سے ایک ان کی حمایت کی وجہ نہ سمجھنا ہے۔ بعض احباب طالبان کی حمایت کو ان کی طرز فکر، طرززندگی کی سپورٹ سمجھ لیتے ہیں اور انہیں فوری تشویش لاحق ہونے لگتی ہے کہ اس طرح تو پاکستان میں طالبان فکر پھیلنا اور پروموٹ ہونا شروع ہوجائے گی۔ بات دراصل یہ نہیں ۔ افغان طالبان کی حمایت کوریاست افغانستان کے ستر سالہ طرزعمل میں دیکھنا اور جانچنا ہوگا اور دوسرا اہم فیکٹر یہ کہ انہوں نے گوریلا جنگ میں کس استعماری قوت کو شکست دی ہے۔ یہ دونوں فیکٹر اہم ہیں، انہیں سمجھے بغیر مغالطوں سے نکلنا ممکن نہیں۔
سب سے پہلے تو اس افغانستان کا قومی رویہ دیکھنا چاہیے، جس کی فکر میں ہمارا لبرل، سیکولر حلقہ دبلا ہونے لگتا ہے۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، تقسیم ہند کے بعد اسے پاکستان کے لئے مفاہمانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا کہ اس لینڈ لاک یعنی چاروں طرف سے گھرے ہوئے ملک افغانستان کے پاکستان کے ساتھ بہت سے فطری تجارتی، اقتصادی مفادات مشترک تھے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس وقت کی افغان حکومت نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا ممبر بنانے کی مخالفت کی۔ افغانستان کی اکانومی، فوجی ،سفارتی قوت سب نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے باوجود مخالفت کرنا اور انکار میںاکلوتا ووٹ ڈالنا ضروری سمجھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تب کے ایک افغان وزیر نے قائداعظم کو خط لکھا، جس میں دعویٰ کیا کہ فاٹا کا علاقہ افغانستان کے حوالے کیا جائے۔ قائد نے خط کا جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔
افغانستان کا رویہ پاکستان کے ساتھ اس کے بعد بھی معاندانہ رہا۔ ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں افغان حکمران ظاہر شاہ نے اپنی فوج کے سربراہ کو بلا کر حکم دیا کہ پاکستانی فوج بھارت سے جنگ میں مصروف ہے، ہمیں بھی پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے۔ اس انوکھے مشورے کو سن کر افغان جرنیل بھنا گیا، اس نے عرض کی شاہ عالم ہم کیا اور ہماری اوقات کیا، ہمارے پاس فوج کتنی ہے اور اس کی تیاری کس قدر ہے کہ ہم پاکستان پر حملہ آور ہوں۔ تب ظاہر شاہ سکون سے بیٹھے ۔
افغان حکومتوں کا یہ معاندانہ منفی رویہ اس کے بعدبھی چلتا رہا۔ پاکستان میں ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے ہرباغی گروہ یا شورش پسند کو افغانستان میں پناہ اور مدد ملی۔ ستر کے عشرے میں معروف پاکستانی پختون قوم پرست رہنما اجمل خٹک افغانستان چلے گئے، وہاں جا کر انہوں نے پختونستان کا نعرہ لگایا اور کے پی جو تب صوبہ سرحد کہلاتا تھا، وہاں شورش پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اجمل خٹک کے ایک نہایت قریبی ساتھی اور پولیٹیکل سیکریٹری پروفیسر جمعہ خان صوفی نے اجمل خٹک کے ساتھ افغانستان میں گزرے ایام پر ایک نہایت دلچسپ کتاب” فریب ناتمام“ لکھی ہے۔
اجمل خٹک کے پختونستان سٹنٹ سے پہلے بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا تو مشہور قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھ شیر محمد مری عرف جنرل شیروف اپنے دیگر جنگجوﺅں کے ساتھ افغانستان چلے گئے ۔ وہاں انہیں نہ صرف پناہ ملی بلکہ مالی مدد بھی فراہم کی جاتی رہی۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب میں یہ تفصیل موجود ہے کہ کس طرح شیر محمد مری حسب منشا مالی مدد نہ ملنے کے باعث شاکی اور ناراض ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے مری قبیلے کے چیف نواب خیر بخش مری سے شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ نواب مری افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے (1996/97)تک وہیں مقیم رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں افغانستان نے کھل کر میر مرتضی بھٹو کی بنائی ہوئی دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کی حمایت کی بلکہ کابل ہی سے اس کے دہشت گرد مختلف آپریشنز کے لئے پاکستان آتے رہے۔ میر مرتضیٰ کے تب ساتھی معروف مصنف راجہ انور نے اپنی کتابوں میں یہ سب تفصیل بیان کی ہے۔
افغانستان کی جدید تاریخ کے پچھلے چوہتر برسوں میں صرف طالبان حکومت کے پانچ سال ایسے ہیں جن میں پاکستان کے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات قائم رہے اور افغانستان کی سرزمین، وسائل اور افرادی قوت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوئی۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے چند برسوں بعد جب بلوچستان میں شورش پسندی کی لہر آئی تو مری، بگٹی شدت پسندوں نے افغانستان کی راہ لی۔ افغان حکومت نے ایک بار پھر ان کی بھرپور مدد کی، انہیں جگہ دی گئی، گوریلوںکو رکھنے، تربیت کے لئے ریکروٹنگ سنٹرز دئیے گئے۔ بھارتی ایجنسی را کو اپنے آپریشن کرنے کے لئے افغانستان کے ان صوبوں میں بھی بھارتی قونصل خانے بنائے گئے جہاں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کرزئی دور میں افغانستان میں بھارت کے آٹھ قونصل خانے کھولے گئے ، آخر کیوں؟افغانستان سے کتنے لوگ روزانہ بھارت جانے کے خواہش مند ہوں گے اور اس کے اخراجات افورڈ کر پائیں گے؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ قونصل خانے کے سٹاف میں شامل را کے ایجنٹ وہاں سرگرم ہوں اور بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ رابطے قائم رکھ سکیں۔
بلوچستان میں شدت پسند گوریلوں کی چارپانچ تنظیمیں کام کرتی رہی ہیں۔ ان میں تین نمایاں ہیں۔ براہمداغ بگٹی کی بلوچستان ری پبلک آرمی (BRA)، ڈاکٹر اللہ نذر کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF)اور خیر بخش مری کے ایک بیٹے حیربیار مری کی بلوچستان لبریشن آرمی(BLA)۔ ان تینوں کے سربراہان ، کمانڈر اور جنگجو افغانستان میںبرسوں پناہ گزیں رہے، ان کے وہاں ٹریننگ کیمپ رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری کو پاکستانی حکومت کے امریکہ سے مسلسل احتجاج پر افغانستان سے بھیجا گیا، مگر ان کا نیٹ ورک وہیں موجود ہے۔ بی ایل اے کے ایک سربراہ اسلم اچھو کو سال ڈیڑھ پہلے اس کے چند ساتھیوں سمیت نامعلوم افراد نے ہلاک کر دیا، یہ واقعہ افغانستان میں ہوا۔ اسلم اچھو ہی پاکستان میں متعدد حملوں کا ذمہ دار تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ افغان حکومت کی مرضی کے بغیر رہ رہا تھا؟ اسی طرح ٹی ٹی پی کا سابق سربراہ ملا فضل اللہ بھی مارے جانے سے پہلے افغان انٹیلی جنس کی مدد سے افغانستان مقیم تھا۔ آج بھی ٹی ٹی پی قیادت اور بیشتر کمانڈر افغانستان میں حکومتی اعانت سے موجود ہیں۔
افغانستان کے اس پورے ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر سمجھنا مشکل نہیں کہ اگر وہاں پر کوئی پاکستان کے لئے دوستانہ جذبات رکھنے والا گروہ اقتدار میں آتا ہے یا حکومت میں بڑا شیئر لیتا ہے تو پاکستانیوں کے لئے اس پر خوش ہونا فطری امر ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا پاکستان میں ہمیشہ مذاق اڑایا گیا اور اس کا غلط مطلب لیا گیا۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان اپنے نیو کلیئر اثاثے، میزائل یا طیارے وغیرہ یا فوجی اڈے افغانستان لے جائے گا یا پھر اسے پانچواں صوبہ بنانا مقصود ہے۔ نہیں ، ہرگز نہیں۔ افغانستان جیسے تضادات سے لبریز ملک کو کون اپنا صوبہ بنانے کی حماقت کر سکتا ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا واحد مطلب یہی ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہے، کم از کم مغربی سرحد تو محفوظ بنا ئی جائے۔ یہ نکتہ مجھے افغان امور کے لیجنڈری ماہر میجر (ر)عامر نے سمجھایا تھا۔ میجر عامر کا کہنا یہی تھا کہ اس نکتہ کو پاکستان میں دانستہ کنفیوژن اور الجھاﺅ کا شکار بنا دیا گیا ہے، ورنہ بات سادہ ہے کہ افغانستان جو مرضی کرے، مگر وہ بھارت کی پراکسی کے طور پر استعمال نہ ہو۔ پاکستان افغانستان سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہاں سے پاکستان کے پہلو میں خنجر نہ گھونپا جائے۔
آج کے افغانستان میں طالبان واحد پرو پاکستان گروپ ہیں۔ ان کی کامیابی اسی لئے ہر پاکستانی نیشنلسٹ کے لئے خوش آئند اور دل خوش کن ہے۔ ہم طالبان سے کچھ نہیں چاہتے نہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ افغان حکومت اپنی تباہ حال معیشت کے ساتھ پاکستان جیسے ملک کی آخر کیا مدد کر سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک میچور، سمجھدار ملک کی طرح بی ہیو کریں اور ہمارے خلاف سازشیں نہ کریں۔ بدقسمتی سے یہ خواہش پچھلے بیس سال میں امریکہ کی زیرنگرانی بننے والی کرزئی، اشرف غنی حکومتوں نے پوری نہیں کی۔
طالبان کی جیت پر خوش ہونے والے دو اور فیکٹرز بھی ہیں۔ انہوںنے امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی۔ میرے جیسے لوگوں کے لئے اس میں مسرت کا پہلو پوشیدہ ہے کہ سامراج کوا پنے بے پناہ وحشی اور ننگی قوت رکھنے کے بعد بھی شکست اور پسپائی ہوئی ہے۔ وہ بھی نہایت کمزور قوت رکھنے والے بے سروساماں گروہ کے ہاتھوں۔ دوسرا طالبان اسلام کے نام لیوا ہیں۔ ان کا طرز فہم قبائلی انداز کا سہی،اس پر اعتراض کئے جا سکتے ہیں، مجھے یا کسی اور کو ان کے فہم دین سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر بہرحال وہ سیکولرازم یاالحاد کے داعی نہیں۔
امید کرنی چاہیے کہ طالبان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہو گا اور وہ اب بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے لچکدار ، معقول رویہ اپنائیں گے، دوسرے نسلی، لسانی گروہوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ افغانستان کو مگر خانہ جنگی سے محفوظ بنانے کی ذمہ داری صرف طالبان پر نہیں عائد ہوتی، اشرف غنی حکومت اور ازبک، تاجک، ہزارہ گروہ بھی اس کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ طالبان نے افغانستان کو قابض فوج سے نجات دلائی، وہ فاتح ہیں، وہ پورے ملک پر کنٹرول سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں، انہیں تیس چالیس فیصد شیئر تک کیسے محدود رکھا جا سکتا ہے؟طالبان کو ان کا جائز اور حقیقی حصہ دینا ہوگا، ورنہ وہ اپنے زور بازو سے سب کچھ لے لیں گے۔
سب سے پہلے تو اس افغانستان کا قومی رویہ دیکھنا چاہیے، جس کی فکر میں ہمارا لبرل، سیکولر حلقہ دبلا ہونے لگتا ہے۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، تقسیم ہند کے بعد اسے پاکستان کے لئے مفاہمانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا کہ اس لینڈ لاک یعنی چاروں طرف سے گھرے ہوئے ملک افغانستان کے پاکستان کے ساتھ بہت سے فطری تجارتی، اقتصادی مفادات مشترک تھے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس وقت کی افغان حکومت نے پاکستان کو اقوام متحدہ کا ممبر بنانے کی مخالفت کی۔ افغانستان کی اکانومی، فوجی ،سفارتی قوت سب نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے باوجود مخالفت کرنا اور انکار میںاکلوتا ووٹ ڈالنا ضروری سمجھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تب کے ایک افغان وزیر نے قائداعظم کو خط لکھا، جس میں دعویٰ کیا کہ فاٹا کا علاقہ افغانستان کے حوالے کیا جائے۔ قائد نے خط کا جواب دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔
افغانستان کا رویہ پاکستان کے ساتھ اس کے بعد بھی معاندانہ رہا۔ ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں افغان حکمران ظاہر شاہ نے اپنی فوج کے سربراہ کو بلا کر حکم دیا کہ پاکستانی فوج بھارت سے جنگ میں مصروف ہے، ہمیں بھی پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے۔ اس انوکھے مشورے کو سن کر افغان جرنیل بھنا گیا، اس نے عرض کی شاہ عالم ہم کیا اور ہماری اوقات کیا، ہمارے پاس فوج کتنی ہے اور اس کی تیاری کس قدر ہے کہ ہم پاکستان پر حملہ آور ہوں۔ تب ظاہر شاہ سکون سے بیٹھے ۔
افغان حکومتوں کا یہ معاندانہ منفی رویہ اس کے بعدبھی چلتا رہا۔ پاکستان میں ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے ہرباغی گروہ یا شورش پسند کو افغانستان میں پناہ اور مدد ملی۔ ستر کے عشرے میں معروف پاکستانی پختون قوم پرست رہنما اجمل خٹک افغانستان چلے گئے، وہاں جا کر انہوں نے پختونستان کا نعرہ لگایا اور کے پی جو تب صوبہ سرحد کہلاتا تھا، وہاں شورش پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اجمل خٹک کے ایک نہایت قریبی ساتھی اور پولیٹیکل سیکریٹری پروفیسر جمعہ خان صوفی نے اجمل خٹک کے ساتھ افغانستان میں گزرے ایام پر ایک نہایت دلچسپ کتاب” فریب ناتمام“ لکھی ہے۔
اجمل خٹک کے پختونستان سٹنٹ سے پہلے بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا تو مشہور قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھ شیر محمد مری عرف جنرل شیروف اپنے دیگر جنگجوﺅں کے ساتھ افغانستان چلے گئے ۔ وہاں انہیں نہ صرف پناہ ملی بلکہ مالی مدد بھی فراہم کی جاتی رہی۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب میں یہ تفصیل موجود ہے کہ کس طرح شیر محمد مری حسب منشا مالی مدد نہ ملنے کے باعث شاکی اور ناراض ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے مری قبیلے کے چیف نواب خیر بخش مری سے شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ نواب مری افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے (1996/97)تک وہیں مقیم رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں افغانستان نے کھل کر میر مرتضی بھٹو کی بنائی ہوئی دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کی حمایت کی بلکہ کابل ہی سے اس کے دہشت گرد مختلف آپریشنز کے لئے پاکستان آتے رہے۔ میر مرتضیٰ کے تب ساتھی معروف مصنف راجہ انور نے اپنی کتابوں میں یہ سب تفصیل بیان کی ہے۔
افغانستان کی جدید تاریخ کے پچھلے چوہتر برسوں میں صرف طالبان حکومت کے پانچ سال ایسے ہیں جن میں پاکستان کے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات قائم رہے اور افغانستان کی سرزمین، وسائل اور افرادی قوت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوئی۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے چند برسوں بعد جب بلوچستان میں شورش پسندی کی لہر آئی تو مری، بگٹی شدت پسندوں نے افغانستان کی راہ لی۔ افغان حکومت نے ایک بار پھر ان کی بھرپور مدد کی، انہیں جگہ دی گئی، گوریلوںکو رکھنے، تربیت کے لئے ریکروٹنگ سنٹرز دئیے گئے۔ بھارتی ایجنسی را کو اپنے آپریشن کرنے کے لئے افغانستان کے ان صوبوں میں بھی بھارتی قونصل خانے بنائے گئے جہاں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کرزئی دور میں افغانستان میں بھارت کے آٹھ قونصل خانے کھولے گئے ، آخر کیوں؟افغانستان سے کتنے لوگ روزانہ بھارت جانے کے خواہش مند ہوں گے اور اس کے اخراجات افورڈ کر پائیں گے؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ قونصل خانے کے سٹاف میں شامل را کے ایجنٹ وہاں سرگرم ہوں اور بلوچ شورش پسندوں کے ساتھ رابطے قائم رکھ سکیں۔
بلوچستان میں شدت پسند گوریلوں کی چارپانچ تنظیمیں کام کرتی رہی ہیں۔ ان میں تین نمایاں ہیں۔ براہمداغ بگٹی کی بلوچستان ری پبلک آرمی (BRA)، ڈاکٹر اللہ نذر کی بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF)اور خیر بخش مری کے ایک بیٹے حیربیار مری کی بلوچستان لبریشن آرمی(BLA)۔ ان تینوں کے سربراہان ، کمانڈر اور جنگجو افغانستان میںبرسوں پناہ گزیں رہے، ان کے وہاں ٹریننگ کیمپ رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری کو پاکستانی حکومت کے امریکہ سے مسلسل احتجاج پر افغانستان سے بھیجا گیا، مگر ان کا نیٹ ورک وہیں موجود ہے۔ بی ایل اے کے ایک سربراہ اسلم اچھو کو سال ڈیڑھ پہلے اس کے چند ساتھیوں سمیت نامعلوم افراد نے ہلاک کر دیا، یہ واقعہ افغانستان میں ہوا۔ اسلم اچھو ہی پاکستان میں متعدد حملوں کا ذمہ دار تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ افغان حکومت کی مرضی کے بغیر رہ رہا تھا؟ اسی طرح ٹی ٹی پی کا سابق سربراہ ملا فضل اللہ بھی مارے جانے سے پہلے افغان انٹیلی جنس کی مدد سے افغانستان مقیم تھا۔ آج بھی ٹی ٹی پی قیادت اور بیشتر کمانڈر افغانستان میں حکومتی اعانت سے موجود ہیں۔
افغانستان کے اس پورے ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر سمجھنا مشکل نہیں کہ اگر وہاں پر کوئی پاکستان کے لئے دوستانہ جذبات رکھنے والا گروہ اقتدار میں آتا ہے یا حکومت میں بڑا شیئر لیتا ہے تو پاکستانیوں کے لئے اس پر خوش ہونا فطری امر ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا پاکستان میں ہمیشہ مذاق اڑایا گیا اور اس کا غلط مطلب لیا گیا۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان اپنے نیو کلیئر اثاثے، میزائل یا طیارے وغیرہ یا فوجی اڈے افغانستان لے جائے گا یا پھر اسے پانچواں صوبہ بنانا مقصود ہے۔ نہیں ، ہرگز نہیں۔ افغانستان جیسے تضادات سے لبریز ملک کو کون اپنا صوبہ بنانے کی حماقت کر سکتا ہے۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کا واحد مطلب یہی ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہے، کم از کم مغربی سرحد تو محفوظ بنا ئی جائے۔ یہ نکتہ مجھے افغان امور کے لیجنڈری ماہر میجر (ر)عامر نے سمجھایا تھا۔ میجر عامر کا کہنا یہی تھا کہ اس نکتہ کو پاکستان میں دانستہ کنفیوژن اور الجھاﺅ کا شکار بنا دیا گیا ہے، ورنہ بات سادہ ہے کہ افغانستان جو مرضی کرے، مگر وہ بھارت کی پراکسی کے طور پر استعمال نہ ہو۔ پاکستان افغانستان سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہاں سے پاکستان کے پہلو میں خنجر نہ گھونپا جائے۔
آج کے افغانستان میں طالبان واحد پرو پاکستان گروپ ہیں۔ ان کی کامیابی اسی لئے ہر پاکستانی نیشنلسٹ کے لئے خوش آئند اور دل خوش کن ہے۔ ہم طالبان سے کچھ نہیں چاہتے نہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ افغان حکومت اپنی تباہ حال معیشت کے ساتھ پاکستان جیسے ملک کی آخر کیا مدد کر سکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک میچور، سمجھدار ملک کی طرح بی ہیو کریں اور ہمارے خلاف سازشیں نہ کریں۔ بدقسمتی سے یہ خواہش پچھلے بیس سال میں امریکہ کی زیرنگرانی بننے والی کرزئی، اشرف غنی حکومتوں نے پوری نہیں کی۔
طالبان کی جیت پر خوش ہونے والے دو اور فیکٹرز بھی ہیں۔ انہوںنے امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی۔ میرے جیسے لوگوں کے لئے اس میں مسرت کا پہلو پوشیدہ ہے کہ سامراج کوا پنے بے پناہ وحشی اور ننگی قوت رکھنے کے بعد بھی شکست اور پسپائی ہوئی ہے۔ وہ بھی نہایت کمزور قوت رکھنے والے بے سروساماں گروہ کے ہاتھوں۔ دوسرا طالبان اسلام کے نام لیوا ہیں۔ ان کا طرز فہم قبائلی انداز کا سہی،اس پر اعتراض کئے جا سکتے ہیں، مجھے یا کسی اور کو ان کے فہم دین سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر بہرحال وہ سیکولرازم یاالحاد کے داعی نہیں۔
امید کرنی چاہیے کہ طالبان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہو گا اور وہ اب بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے لچکدار ، معقول رویہ اپنائیں گے، دوسرے نسلی، لسانی گروہوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ افغانستان کو مگر خانہ جنگی سے محفوظ بنانے کی ذمہ داری صرف طالبان پر نہیں عائد ہوتی، اشرف غنی حکومت اور ازبک، تاجک، ہزارہ گروہ بھی اس کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ طالبان نے افغانستان کو قابض فوج سے نجات دلائی، وہ فاتح ہیں، وہ پورے ملک پر کنٹرول سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں، انہیں تیس چالیس فیصد شیئر تک کیسے محدود رکھا جا سکتا ہے؟طالبان کو ان کا جائز اور حقیقی حصہ دینا ہوگا، ورنہ وہ اپنے زور بازو سے سب کچھ لے لیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر