دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان اور نئی ابتلا|| ارشاد رائے

اب ہمیں اندرونی طور پر تمام تر اختلافات بھلا کر ایک قوم بن کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہیے اور اس سنگین صورت حال میں عصبیت ، جذباتیت کو بھلا کر ہوش مندی اور حکمت سے کام لینا چاہیے

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا ملک جس کا پورا اور سرکاری نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان “ ہے ویسے تو انتہائی خوبصورت نام ہے مگر عملی طور پر دیکھا جاۓ تو نہ یہاں اسلام ہے نہ جمہور اور نہ ہی پاکیزگی مگر پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک ایسی مملکت خدادا ہے جہاں سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں مثلاً واپڈا ہے بجلی نہیں عدالتیں ہیں انصاف نہیں پارلیمان ہے جمہوریت نہیں ہسپتال ہیں علاج نہیں زرعی ملک ہے اجناس نہیں ملائیت ہے اسلام نہیں تھانہ ہے لاء اینڈ آرڈر نہیں قومیں ہیں قوم نہیں یہاں قوم کانٹوں پر سونے کیلۓ مجبور جبکہ مراعات یافتہ طبقہ اور حکمران پھول میلے منانے میں مگن ہیں ایک طرف آزمائیشیں ہی آزمائیشیں دوسری طرف آسائشیں ہی آسائشیں یہاں عوام کو کئی چیزیں مقدر اور ورثے میں ملی ہیں مثال کے طور پر انتہائی قابلیت سے تیار کی گئی جہالت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جذباتیت ہر سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں موجود بےانت حقارت آنے والی نسلوں کیلۓ قرضے نوٹوں کے نام پر ٹکڑے اور چیتھڑے بے روز گاری ، بیماری ایک جیسے کاموں مگر مختلف ناموں والی پارٹیوں کے جڑواں منشور دو وقت کی روٹی کیلۓ بیرون ملک کے دھکے فرقہ وریت کے جھگڑے ذات برادری و زبان کے لفڑے آوے آوے تبدیلی تبدیلی جیوے جیوے جیسے بے جان اور بے معنی نعرے چند خواب اور باقی سب سراب معجزوں کی اُمید کسی مسیحا کا انتظار ان دیکھی زنجیریں ، رشوت دے کر بنوایا گیا قومی شناختی کارڈ، بے کسی اور کم ہمتی ، بے بسی میں لپٹا ہوا غصہ ، نہ ختم ہونے والی کنفیوزن کبھی کبھی قوم سے خطاب ، کبھی جمہوریت کبھی مارشل لاء اور کبھی شاہنشاہیت کی خواہشیں ،اتحاد اور خود پر اعتماد کا فقدان ، ان تمام آزمائشوں اور مصیبتوں کے جس ٹاٹ پر ہم بیٹھے سُستا رہے تھے وہاں ایک اور ابتلا اور افتاد نے ہمیں آ گھیرا ہے وہ ابتلا ہے افغان جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز کا انخلا اور وہاں ممکنہ طالبان کا کنٹرول اور مضبوطی
قارئین حضرات میں پرفکٹ فگر تو نہیں جانتا کہ افغان جنگ میں امریکہ کا جانی نقصان کتنا ہوا ہے مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق ویتنام میں امریکہ کے تقریباً باون ہزار فوجی ہلاک ہوۓ اور یہاں اس سے کئی گناہ زیادہ ہوے ہیں البتہ اس جنگ میں امریکہ بہادر کے معاشی نقصان کے اعدادوشمار کچھ یوں ہیں کہ بیس برس میں مجموعی امریکی خرچہ دو اعشاریہ چھبیس ٹرلین (کھرب) ڈالر ہے اس میں سے پونے دو کھرب ڈالر اسلحے اور فوج پر خرچ ہوۓ دوسو چھیانوے ارب ڈالر فوجیوں کے علاج اور معذوروں کی سہولتوں پر خرچ ہوۓ پانچ سو بیس ارب ڈالر جنگی قرضے کے سود کی مد میں چلے گۓ ساٹھ ارب ڈالر افغان فوج کی تربیت و تشکیل پر خرچ ہوۓ جبکہ ایک سو چالیس ارب ڈالر تعمیر نو ع کے نام پر مقامی وفاداروں تعمیراتی ٹھیکے داروں میں بٹ بٹا گۓ بدلے میں ہاتھ کیا آیا کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
اس تمام صورت حال میں میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہمارا ملک جس نازک اور سنگین دور سے گذر رہا ہے اور جو حالات پیش آنے والے ہیں وہ کبھی پیش نہ آۓ تھے حادثات اور خطرات اپنے جبڑے کھولے ہماری سرحد پر کھڑے ہیں ایسے کہ ان کی کچلیاں تک دکھائی دے رہی ہیں ایک بار پھر امریکہ نے اس خطے اور خاص طور پر پاکستان کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ایک بار پھر ہمیں دھشت گردی اور بم دھماکوں کا خطرہ لاحق ہے امریکہ بہادر اور اتحادیوں نے انخلا کے وقت خطے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے ملک پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا پاکستان کو اپنے تحفظات سے مطمئن نہیں کیا خدا نہ کرے اگر طالبان سابقہ نظریات وخیا لات کے ساتھ کابل کا کنٹرول دوبارہ سنبھا ل لیتے ہیں تو پاکستان ایک بار پھر 2005سے 2018 کی دہائی میں چلا جاۓ گا جہاں بم دھماکے دہشت گردی افراتفری کا راج تھا اس بارے میں ہمارے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی کی گئی تقریر میں اگاہ کیا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین اور نازک حالات سے دوچار ہے اور آنے والے حالات مزید کتنے سنگین اور مشکل ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ہم نے پہلے ہی اس پرائی جنگ میں کود کر بہت نقصان اٹھایا ہے معاشی نقصان تو ایک طرف ہم نے کم از کم بہتر ہزار افراد دھشت گردی میں شہید کرواۓ اور لاکھوں لوگ معذور ہوۓ ہیں دعا ہے کہ اللہ نہ کرے دوبارہ ویسے حالات ہوں مگر اب ہمیں اندرونی طور پر تمام تر اختلافات بھلا کر ایک قوم بن کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہیے اور اس سنگین صورت حال میں عصبیت ، جذباتیت کو بھلا کر ہوش مندی اور حکمت سے کام لینا چاہیے ہمارے سیاستدانوں اور عسکری طاقتوں کو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ٹھوس اور مربوط پالیسیاں بنانی چاہیں جو لوگ لوگوں کی راۓ اور رویت پر اثر انداز ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ متانت اور معقولیت کی تلقین کریں اور حالات کا صحیح ادراک پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیں

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author