ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں ایک ہی کتاب بکتی ہے ” مرنےکے بعد کیا ہو گا “۔ حالیہ زندگی کی کھٹنائیوں اور نارسائی سہنے والوں کو یہ کتاب کہیں اور پناہ لینے کے سپنے دیکھنے پہ اکساتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس میں لکھے گئے فسانے پڑھنے کے بعد رواں زندگی ہی جنت کا ٹکڑا محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
صاحب مرنے کے بعد کیا ہو گا تو پردہ غیب میں ہے لیکن ہماری زنبیل میں کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اب خدارا ماہواری کا نام سنتے ہی ناک بھوں نہ چڑھانا شروع کر دیجیے گا۔
ماہواری ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کے متعلق جاننا آپ کی شریک حیات، بچوں اور گھر کی دوسری خواتین کے لئے اہم تو ہے ہی، کم آپ کے لئے بھی نہیں کہ بہت سے مسائل کے گورکھ دھندے کا سرا مل جائے گا۔
کون نہیں جانتا کہ جیسے بلوغت کا آغاز ماہواری سے ہوا ایسے ہی ایک دن ماہواری رخصت بھی ہو جائے گی۔ ماہواری کے نشیب وفراز اور تکلیف سے گزرنے والی خواتین شکر کا کلمہ پڑھیں گی کہ جان چھوٹی۔ لیکن دراصل ایسا ہوتا نہیں اور المناک بات یہ ہے کہ ماہواری کا اختتام ایک ایسے دور کا آغاز ہے جسے جھیلنا آسان کام نہیں۔
زندگی میں کوئی دل چسپی نہیں رہی!
بات کرنے کو جی نہیں چاہتا!
دل چاہتا ہے روتی رہوں!
نیند نہیں آتی!
رات سوتے میں آنکھ کھل جاتی ہے!
پسینے میں بھیگ جاتی ہوں اور دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے!
جسم میں تھکاوٹ اور درد رہتا ہے!
شوہر کا لمس اچھا نہیں لگتا!
جنسی تعلقات سے الجھن ہوتی ہے
بے چینی بہت زیادہ ہے!
غصہ بہت آتا ہے جی چاہتا ہے اختلاف رائے کی صورت میں سامنے والے کا سر پھوڑ دوں
ہڈیوں میں درد رہتا ہے
ویجائنا میں جلن رہتی ہے
رحم اور مثانہ اپنی جگہ سے سرک کے باہر آ رہے ہیں
ایک دم گرمی لگتی ہے اور پسینے میں نہا جاتی ہوں
وزن تیزی سے بڑھ رہا ہے ، بال گر رہے ہیں اور چہرہ بد نما ہو رہا ہے
یہ ہے وہ سب جو ماہواری کے بعد ہوتا ہے اور شکر کے ترانے گانے والی خواتین بوکھلا اٹھتی ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ ماہواری بخشواتے بخشواتے کیا کچھ گلے پڑ گیا۔
عورت کے لئے ایسٹروجن ہارمون وہ آب حیات ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کی نس نس میں زندگی بن کر دوڑتا ہے لیکن سن یاس کے بعد اس کی کمی عورت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔ جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے، ذہنی طاقت منتشر ہو کر ابتری کا باعث بنتی ہے۔ نتیجتاً ہڈیوں کا بھربھرا پن، ڈیپریشن، اینگزائٹی، ویجائنا کی جلن، بے خوابی، سر کے بالوں میں کمی، چہرے پہ جھریاں، موٹاپا، دل کی بیماری ، بلڈ پریشر ، ذیابیطس، موتیا، ہڈیوں کے فریکچر، یادداشت کی کمی، جوڑوں کے درد اور کینسر کی تکلیف سامنے آتی ہے۔
پچاس کے ہندسے کے بعد عورت کے لئے جینا آسان نہیں اور مشکل یہ ہے کہ زندگی کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے۔ جسمانی مسائل کے ساتھ ساتھ چڑچڑا پن، اضطراب، مایوسی، بے کلی، کمزوری، بے چینی، بے وجہ گریہ عورت کے ساتھ سائے کی طرح چلتا ہے۔
“حل کیا ہے ڈاکٹر صاحب؟”
یہ ہے وہ سوال جو خواتین چھوٹتے ہی پوچھتی ہیں۔
“ماہواری سے ناتا دوبارہ جوڑ لیجیے” ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔
“نہیں نہیں! توبہ کیجیے، بڑی مشکل سے تو فراغت حاصل ہوئی ہے” خواتین بوکھلا کر جواب دیتی ہیں۔
“جان لیجیے کہ یہی فراغت آپ کی سب بیماریوں کی جڑ ہے”
عقل یہ کہتی ہے کہ اگر جسم میں کسی چیز کی کمی ہوئی ہے تو وہ دوا سے پوری کی جائے۔ طبعی ہارمون ایسٹروجن کی کمی کا ایک جواب ہے سنتھٹک ہارمون ایسٹروجن۔ مشکل یہ ہے کہ ایسٹروجن ہارمون جسم پہ کچھ سائیڈ افیکٹ بھی ڈالتا ہے جن کا نام سنتے ہی خواتین بدک جاتی ہیں۔ ان سائیڈ ایفیکٹس میں چھاتی اور رحم کا کینسر اور دل کی بیماری شامل ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ ہڈیوں کے بھربھرے پن اور فریکچر، ڈپریشن، یادداشت اور جنسی تعلق کی رغبت میں کمی اور ہاٹ فلشز ( سوتے میں گھبراہٹ اور گرمی کا شدید احساس ) سے بھی ایسٹروجن کے استعمال سے ہی بچا جا سکتا ہے۔
ان سائیڈ افیکٹ سے معاملہ طے ہو سکتا ہے اگر عورت اپنے جسم کو ترجیحات کی فہرست میں آخری نمبر پہ نہ رکھے۔
بریسٹ کینسر کے خطرے سے بچنے کے لئے اگر سالانہ بنیادوں پر میموگرافی کرا لی جائے تو یہ خدشہ ٹل جاتا ہے۔ رحم کے کینسر کے لئے اگر ایسٹروجن کے ساتھ پروجیسٹرون ہارمون ملا لیا جائے تو کینسر کا رسک بہت کم ہو جاتا ہے۔ ماہواری بھی یا تو نہیں آئے گی یا صرف داغ لگنے تک محدود ہو جائے گی۔ اسی طرح دل کا معائنہ کرواتے رہنا بھی ضروری ہے۔
1991 میں امریکہ میں woman health initiative کے نام سے ایک تحقیق شروع ہوئی جس میں ڈیڑھ لاکھ خواتین کو شامل کیا گیا۔ اس تحقیق کا مقصد ماہواری ختم ہونے کے بعد دل کی بیماری اور ہڈیوں کے بھربھرے پن کی شرح معلوم کرنا تھا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر ہارمونز استعمال کیے جائیں تو کیا شرح میں کمی ہو گی؟
تحقیق بہت برس چلی لیکن پھر بہت سے تحفظات کا شکار بن کے ختم ہونے سے پہلے ہی روکنی پڑی۔ ایک اہم عنصر یہ تھا کہ تحقیق کے بنیادی ڈھانچے میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں۔ اس تحقیق نے اس وقت ہارمونز دینے کے خلاف بات کی لیکن بعد کے برسوں میں اس خیال کو بھی چیلنج کر دیا گیا کہ کچھ غلط نتائج کی بنا پہ کسی بھی دوا کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ خواتین کی صحت معاشرے کے عام آدمی سے لے کر حکام بالا تک وہ اہمیت نہیں رکھتی کہ اس کے متعلق سنجیدگی سے کام کیا جائے۔
بازار میں ایسٹروجن کی گولیاں، لوشن اور جلد پہ چپکنے والے پیچز موجود ہیں لیکن ان سب کو گائناکالوجسٹ کے مشورے سے ہی لینا چاہئے۔
ایسٹروجن سے ملتا جلتا ایک عنصر سویا بینز اور نٹس میں پایا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ استعمال بھی طبعیت میں بہتری لاتا ہے۔
ماہواری کے بعد کے برسوں میں خواتین کو ورزش اس ذوق و شوق سے کرنی چاہئے جس طرح وہ تسبیحات کرتی ہیں۔ ورزش وہ واحد عمل ہے جو جسم کی بے پناہ ٹوٹ پھوٹ کے سامنے بند باندھتے ہوئے عورت کو چلنے پھرنے کے قابل رکھتا ہے۔
ماہواری، مرنا اور موت ” م ” سے شروع ہوتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ ماہواری ختم ہونا، ایک طرح سے مرنا ہی تو ہے۔ ایک ایسی موت جس میں ایک جیتا جاگتا جسم لاشہ بن کر زندگی کا سفر گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔
ماہواری کو سمجھیے اور اس سے محبت کیجیے! یہی زندگی ہے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر