عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر بات کہہ لینے کی نہیں ہوتی کیونکہ ہر بات ہر کسی کے سمجھنے کی نہیں ہوتی۔ اللہ نے جیسے سب کو الگ الگ سکت اور نوعیت کا نظام ہضم دے رکھا ہے ایسے ہی سیانی گیانی بات دماغ میں جذب کرنے کی صلاحیت بھی سب کے پاس ایک سی نہیں۔
مذہب کا موضوع بھی ایسا ہی بھاری بھر کم ہے۔ مذہب ایک الہامی معاملہ ہے، جس پہ ایمان لانا، ایمان قائم رکھنا، مذہب کے بتائے طریقے سے زندگی گزارنا یہاں تک کہ بہت سے مقامات پر عقل میں کلبلاتے سوالات کو ایک طرف رکھ کر مذہب کے بتائے راستوں کو چن لینا، یہ سب کسی بھی مذہب کے ماننے والوں پر فرض ہے۔
مذہب بہت نازک موضوع ہے، یہ بیک وقت تحقیق مانگتا ہے اور بغیر کسی تحقیق کے اندھا یقین بھی۔ مذہب سائنس کی الجھی گتھی کو ایک آیت کے پانچ الفاظ میں لپیٹ لیتا ہے اور یہی مذہب ہے جو حضرت انسان کو جہان کی وسعتوں میں الجھائے رکھتا ہے۔ ہزاروں برسوں کی تاریخ کو لمحہ بھر میں سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ مذہب تغیر کو فطرت کہتا ہے مگر خلاف فطرت ہونے والی ہر تبدیلی کے راستے میں کھڑا ہوتا ہے۔
یہ تو طے ہو گیا کہ مذہب اور مذہبی تعلیم ایک نازک، سنجیدہ، پیچیدہ اور انتہائی غور طلب، تحقیق طلب معاملہ ہے۔ اب ذرا اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں۔ خود دیکھیں کہ مذہب کن ہاتھوں میں ہے؟ مذہب کو اپنا اوڑنا بچھونا کس نے بنا رکھا ہے، مذہب پر کس طبقے کی اجارہ داری ہے؟ مذہب پہ انسانی وسائل کون لگاتا ہے؟ سرمایہ کاری کون کرتا ہے؟ مذہب کو زیادہ وقت کون دیتا ہے؟ مذہب پر تحقیق کس کی ہے؟
اسلامی دنیا میں مذہب اسلام کی تعلیم، ترویج اور تحقیق کا ذمہ دینی مدارس کا ہے۔ مسجد کے امام، قرآن پڑھانے والے قاری صاحب، حافظ، مولوی، مُلا، عالم، مولانا، مفتی، شیخ، علامہ کے مختلف ناموں اور علمی درجات کے اعتبار سے انہی مدارس کی پراڈکٹ ہوتے ہیں۔
ویسے تو جامعات میں بھی اسلامیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرائی جاتی ہے وہاں سے اسلامک سکالر نکلتے ہیں۔ مگر معاشرے میں جو مقام و مرتبہ کسی مشہور مدرسے سے منسلک مولوی کو ملتا ہے یونیورسٹی کے اسلامک سکالر بہت کوشش کے باوجود اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر پاتے۔
یہ بھی واضح ہو گیا کہ دین اسلام کی تعلیم و ترویج کا اصل چشمہ مدارس سے پھوٹتا ہے۔ اب ذرا مذہب کے موضوع کی سنجیدگی جانچیں، اسلامی مدارس کی کلیدی حیثیت دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ ان مدارس میں جاتا کون ہے اور دینی تعلیم کس کی ترجیح ہے۔
بچہ یتیم ہو تو مدرسے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ گھر میں کھانے کو دانے نہ ہوں تو سکول کون بھیج سکتا ہے، مدارس انہیں کھانا دیتے ہیں دینی تعلیم دیتے ہیں۔ جن بچوں کا مقیاس ذہانت کم ہو یا جنہیں روایتی تعلیم میں شدید دقت ہو ایسے بچے مدرسے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ جن خاندانوں نے مدارس اور مساجد کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے ان کے بچے دینی تعلیم کی جانب جاتے ہیں۔
مدارس مذہب اسلام کے نام پر بنے ہوتے ہیں مگر ان کی تعلیم کن مضوعات کے گرد گھومتی ہے ہمیں معلوم ہے اور ایڈمنسٹریشن چند نامور علما کی مٹھی میں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ مدارس سیاسی جلسوں اور پریشر گروپ کے طور پر بھی استعمال ہوتے اب نظر آتے ہیں۔
مذہب اور اس کی تعلیم کے دائرے میں نہ آپ کو مکالمہ ملے نہ مناظرہ۔ نہ کوئی تحقیق ملے گی، نہ دیگر علوم و فنون سے تعلق نظر آئے گا۔ دین اسلام صرف مذہبی افراد کے لیے نہیں اس میں امن، برابری، منطق، فلسفہ، تاریخ، سائنس، سیاست سب کچھ شامل ہے مگر موجودہ مذہبی سسٹم میں آپ کو ایک مخصوص طبقہ تو ملے گا مگر معاشرے کا عام فرد نہیں۔ اور پیچھے رہ گئی عورت تو اس نظام میں اس کی تو خیر کوئی گنجائش ہی نہیں۔
مذہب اسلام سے تحقیق، مکالمہ اور جمعیت نکال دیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ میرے خیال میں تو صرف مولوی، منبر، مدرسہ اور مرد پرائیوٹ لمیٹڈ۔ پھر دینی تعلیم کے اداروں میں جنسی درندگی کے ایسے ایسے واقعات جن کا ذکر بھی کرنا محال ہے۔
بات شروع ہوئی تھی ایک لطیف الہامی معاملے یعنی آسمانی مذہب دین اسلام اور اس کی تعلیم و تحقیق سے۔ اور بات آ کر کہاں پھنسی؟ ایک مخصوص طبقے کی جارہ داری، اسلام کی ٹھیکیداری پہ۔
چند ایک سوالوں کے ساتھ آپ کو دعوت فکر دیے جاتی ہوں۔
کیا قرآن کو جُزدان، اسلام کو مدرسے، شرعی فرائض و واجبات کو رمضان، اور اسلام کو صرف عبادات تک محدود کرنے والے ہم نہیں؟
کیا ایک مخصوص گروپ کو مذہب کا ٹھیکہ دینے والے آپ اور ہم نہیں، کیا مذہب کے موضوع کو ہم نے اپنے کندھوں کا بوجھ سمجھ کر اتارا اور مولوی پہ نہیں ڈالا؟ یہ شاید اس لیے تو نہیں کہ گناہ ثواب کا سارا جھنجھٹ مولوی جانے۔
کیا اسلام، قرآن پاک، احادیث، شریعت، طریقت، تاریخ، فقہہ پڑھنے کی کوئی آفاقی ذمہ داری صرف مولوی پر ہی عائد ہوتی ہے؟ کیا دینی تعلیم کے لیے مدارس ہی آخری سٹاپ ہیں؟ کیا جدید علوم کے ساتھ دین کی تعلیم نہیں لی جاسکتی؟ کیا اعلیٰ دینی تعلیم کا بوجھ عورتیں نہیں اٹھا سکتیں؟
بعض مولوی حضرات کی تو جتنی بساط ہے وہ مذہب کے ساتھ وہی کر رہے ہیں مگر ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کو ترجیحات کے آخری خانے میں رکھا ہوا ہے، اپنی تن آسانی کی خاطر ہم نے یہ ٹھیکہ خود مولوی، مدرسے، منبر اور مرد کو دے رکھا ہے۔ مذہب کو ایک ٹولے کا پرائیوٹ لمیٹڈ پراجیکٹ ہم نے بنایا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر