دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’شرافت کی سیاست‘‘||حیدر جاوید سید

سپیکر نے اپنے چیمبرز میں پارلیمانی ضابطہ اخلاق کے لئے سوموار کے روز اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں شدید تلخی ہوئی۔ مشکل سے سپیکر بیچ بچاو کرواپائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے پہلے روز بجٹ تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی اور لیہ سے رکن قومی اسمبلی مجید نیازی کی ناروا جملہ بازی پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسانے کے بجائے اس کا نوٹس لیا گیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ منگل کو جو کچھ ایوان میں ہوا وہ نہ ہوتا۔
محترمہ زرتاج گل نے ایک ویڈیو پیغام میں منگل کے واقعہ پر کہا ہے‘‘ہمیں وزیراعظم عمران خان نے شرافت کی سیاست سیکھائی ہے۔ یہاں خواتین کو مارا گیا، گالیاں دی گئیں یہ سب بچے اور مائیں بہنیں نہیں سن سکتیں‘‘۔
وہ درست کہتی ہیں لیکن بدقسمتی سے بجٹ اجلاس کے پہلے دن وہ (زرتاج گل) اور علی امین گنڈاپور جس طرح مجید نیازی کی جملہ بازی سے محظوظ ہوکر داد دے رہے تھے یقیناً وہ شرافت کی کتاب کا پہلا درس تھا۔
روز اول کے ہنگامہ کے دوران بھی گالم گلوچ ہوئی، اس کی ویڈیوز سپیکر کے پاس موجود ہیں لیکن وہ کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ پھر ایک پسندیدہ وزیر کو معطل کرنا پڑے گا۔
سپیکر نے اپنے چیمبرز میں پارلیمانی ضابطہ اخلاق کے لئے سوموار کے روز اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں شدید تلخی ہوئی۔ مشکل سے سپیکر بیچ بچاو کرواپائے۔
پھر طے ہوا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تقاریر کے دوران ہلڑبازی نہیں ہوگی۔ یہ معاہدہ 24گھنٹے بھی نہ چل پایا۔ سپیکر معاہدہ کے وقت جانتے تھے اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا وجہ یہ ہے کہ تین اہم حکومتی ارکان سپیکر کےبلائے گئے ضابطہ اخلاق اجلاس میں مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہمارے ارکان بہت جذبائی ہیں، کنٹرول کرنا مشکل ہورہا ہے۔
کیوں جذباتی ہیں، کنٹرول کیوں ممکن نہیں اس کی وجہ ہمارے مربی و مخدوم قبلہ شاہ محمود قریشی جانتے ہیں مگر وہ بتائیں گے نہیں ویسے بھی اب انہیں اسمبلی کی رکنیت اور وزارتوں سے دلچسپی نہیں رہی وہ ان منصبوں سے "بلند” ہوگئے ہیں۔
سپیکر چیمبرز میں طے پانے والے معاہدہ پر کیسے عمل ہونا ہے اس پر غور کے لئے پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران سوموار کی شب اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون علی نواز اعوان کے گھر جمع ہوئے۔ حکمت عملی طے پاگئی۔
منگل کو جو کچھ ہوا وہ اس حکمت عملی کا حصہ تھا۔ لاریب اپوزیشن ارکان بھی دودھ کے دھلے ہرگز نہیں۔ جوابی غزلیں بلکہ ٹھمریاں انہوں نے خوب سنائیں اور اچھالیں۔
پہل کس نے کی؟ اس سوال کا جواب علی نواز اعوان کے گھر پر ہوئےاجتماع میں ہونے والے اتفاق رائے میں موجود ہے۔ منگل کو جو کچھ ہوا وہ شرمناک تھا ہے اور رہے گا۔
الزامات اور جوابی الزامات کی تکرار میں سچ سامنے کبھی نہیں آسکے گا۔ ایک وجہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری بھی ہیں جنہوں نے مریم اورنگزیب کے بارے میں ناشائستہ جملہ بولا۔
ہم اسے چھوڑدیتے ہیں ہر آدمی اپنے ظرف کے مطابق بات کرتا ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ منتخب ہوکر ایوان میں آنے کے معاملے میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری بہت جذباتی ہیں انہیں ہونا بھی چاہیے کیونکہ وہ اس وقت ایک حکم امتناعی پر اسمبلی میں موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن ان کے حلقہ انتخاب کے نتائج کو بوگس قرار دے کر انہیں نااہل قرار دے چکا۔
منگل کو ایوان میں ہر وہ جملہ بولا اور اچھالا گیا جو کسبیاں بولتی ہیں نہ اچھالتی ہیں۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ ویڈیوز یکطرفہ ہیں دوسری طرف کے ’’مجاہدین‘‘ کی ویڈیوز غائب کردی گئیں۔ اس موق پر رونا ہے یا ہنسنا ؟
فقیر راحموں کا جواب ہے خاموشی بہتر ہے۔
ویسے وہ (فقیر راحموں) محترمہ زرتاج گل کے ویڈیو پیغام سے "متفق” ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔
کیا سپیکر قومی اسمبلی منگل کے ہنگامے کی تحقیقات کرواسکیں گے؟ ہمارا جواب نفی میں ہے۔
وجہ یہ ہے کہ وزراء تک تو اس میں پیش پیش تھے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب طے پایا گیا تھاکہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تقاریر شورشرابے کے بغیر تحمل سے سنی جائیں گی تو پھر ہنگامہ کیوں ہوا؟
ایک رائے یہ ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ بجٹ منظور نہیں کرواپائے گی اس لئے اس کے ہارڈ لائنرز نے حکمت عملی وضع کی اور جو کچھ ہوا وہ اس کا حصہ ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ایوان کے اندر ایسا بلنڈر ہوجائے جو ساری بساط الٹنے میں معاون ہو۔
درمیانی خبر یہ ہے (دوسری اطلاع آگے عرض کتا ہوں) کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک (اس پر جمعہ 18جون کو رائے شماری ہونی ہے) لائے جانے پر پی ٹی آئی کا نوجوان گروپ بہت مشتعل ہے اور منگل کا واقعہ اصل میں اس کا حساب چکانے کی ایک کوشش بھی تھی
دوسری اطلاع یہ ہے کہ ’’سائیوں‘‘ اور حکومت کے درمیان بعض امور پر دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ اب پی ٹی آئی میں بنی گالہ گروپ کہلانے والے ارکان کی کوشش ہے کہ سب کو دیوار سے لگادو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ جو ہوگا میں کیا کیا شامل ہوسکتا ہے اس کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ ’’کچھ ہوا‘‘ تو ہم عوام کے پاس جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ چلیں آپ عوام کے پاس پہنچ گئے کہیں گے کیا؟ ہمارے دوست وسی بابا (معروف بلاگر اور صحافی) اس حوالے سے جو داستان بُن رہے ہیں اس میں نصف درجن کے قریب کہانیاں ہیں۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کا بنی گالہ گروپ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ایک حالیہ ملاقات پر برہم ہے اس گروپ کے انتہائی جذباتی رکن نے سوموار کی رات علی نواز اعوان کے گھر ہوئے مشاورتی اجلاس میں کہا
’’ہمیں احمق سمجھتے ہیں کہ استعمال کرکے پھینک دیں گے۔ ہم نواز لیگ نہیں۔ ہمارا منہ کھلا تو کوئی منہ نہیں چھپاپائے گا”
خیر ہم اور آپ دیکھتے ہیں کہ اب ہوتا کیا ہے البتہ دو باتیں مکرر عرض کئے دیتا ہوں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو اپنی زبان و بیان کے ساتھ غصے پر کنٹرول رکھنا چاہیے۔ علی نواز کے گھر اور پھر اسمبلی کے اندر انہوں نے جو الفاظ کہے وہ ویسے اس امر کے متقاضی ہیں کہ وہ باعزت طریقے سے ڈپٹی سپیکر کے منصب سے مستعفی ہوجائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ منگل کے ہنگامے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ سپیکر تحقیقات کروائیں اور پھر قواعد پر عمل کریں۔
پسِ نوشت
سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے پر 7 ارکان کے ایوان میں داخلہ پر پابندی لگادی ایوان میں موجود دوارکان کو سارجنٹس کے ذریعے آج نکلوایا بھی گیا جن سات ارکان پر پابندی لگی ان میں سے تین کا تعلق تحریک انصاف تین کا مسلم لیگ نون اور ایک کا پیپلز پارٹی سے ہے ۔ بہت احترام کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ فیصلہ فقط نگ پورے کرے مٹی پاوٴ پروگرام پر عمل ہے کیونکہ اگر ویڈیوز دیکھ کر فیصلہ ہوتا تو پانچ وزرا سمیت تیس ارکان قومی اسمبلی پابندی کی زد میں آتے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author