حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئندہ مالی سال کے لئے وفاقی بجٹ آگیا اب بالترتیب صوبائی بجٹ تشریف لائیں گے۔ اونچی اڑان اڑنے اور زمین کو آسمان بنا دینے کے دعوے ہر سال ہوتے ہیں
ساڑھے چار دہائیوں کے دوران تشریف لانے والے بجٹوں کو ہم نے زیرزبر اور ایک سے سو تک کھلی آنکھوں سے پڑھا۔ یہ پڑھنا مجبوری تھی۔پڑھیں گے نہیں تو لکھیں گے کیسے ۔
وہ ایک پرانی مثال ہے نا
”گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا”۔
قلم مزدوروں کا بھی کچھ ایسا حال ہی ہے ۔ جوشائع ہو رہا ہے اس سے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے اساتذہ کرام فرمایا کرتے تھے ۔ جو بھی چیز شائع ہو جائے وہ پڑھنی چاہئے اگردستیاب ہو۔ دفتر میں ہوں تو نصف درجن سے زائد اردو ‘ انگریزی اخبار دستیاب ہوتے ہیں ۔ اب بڑے عرصے سے صحت کے مسائل ہیں گھر سے کام کرکے بھجواتا ہوں کیونکہ محنت مزدوری ضروری ہے ۔
اپنی مزدوری لکھنا پڑھنا ہے اور کیا کر سکتے ہیں کچھ نہیں۔ پڑھنے والوں کا شکریہ وہ ہمیں برداشت کر رہے ہیں۔
خصوصاً”مشرق” کے قارئین کا جن سے سال 1992ء میں تعلق بنا تھا دو درمیانی وقفوں کے باجود تیس سال سے نبھ ہی رہا ہے ۔ قارئین کی شکایات بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔
مسائل کے حوالے سے خطوط بھی کچھ احباب اپنی محبوب سیاسی جماعت پر ہوئی تنقید پر ناراض ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صاحب(قاری) نے مشورہ دیا” تم کالم لکھنا چھوڑ دو تاکہ تمہاری جگہ کوئی اچھا آدمی کالم لکھے”
عرض کیا کوئی اور اچھا آدمی کیوں آپ ہی لکھئے ۔ ہمارے اس مہربان قاری کو انسانی تاریخ کے سارے چھوٹے بڑے جرائم پیپلز پارٹی میں دکھائی دیتے ہیں۔پیپلز پارٹی کا نام سن کر فشار خون بلند ہونے لگتا ہے ان کی کوئی ذاتی دشمنی ہو گی کیونکہ نظریاتی اختلافات پر تو شائستہ انداز میں بات ہوتی ہے ۔
سیاسی عمل میں مخالفت سے نفرت اور اسے غدار بھارتی ایجنٹ وغیرہ وغیرہ قرار دینے کی بدعت کا ایجاد آل انڈیا مسلم لیگ نے کیا تھا وہی مسلم لیگ جو پاکستان بنانے کی دعویدار ہے ۔
یہ کفرا کفری کے فتوے صالحین کی جماعت اسلامی نے اپنی دینی سیاسی فہم کی ٹکسال میں ڈھالے تھے اب تو خیر گلی گلی
ان ا شیاء کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔
ایک سے زائد بار ان کالموں میں عرض کر چکا تقسیم شدہ برصغیر کے اس حصہ پاکستان میں زندگی کی رونق قائم رکھنے کے لئے ایک کافر ۔ ایک بھارتی جمع اسرائیلی ایجنٹ ایک مشرک ‘ ایک عدد لادین کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔
ان پانچ اشیاء کا کاروبار پچھلے ستر برسوں سے ہمارے یہاں خوب چلا۔ اب اس کے مزید پھلنے پھولنے اور دھندے کے عروج پر جانے کا ایک نیا موسم دستک دے رہا ہے اس موسم کو مشترکہ تعلیمی نصاب کہہ لیجئے
یہ جو پاکستان ہے یہ قدیم ا نڈس ویلی ہے قدیم اور اس میں ایک نہیں پانچ قومیں ہزارسالوں سے بستی ہیں ان کی اپنی تاریخ ہے ‘ تہذیب و تمدن ‘ کلچر اور منشور ہے ہمارے بزرگ(بزرگ احتراماً لکھا آپ پالیسی ساز کہہ لیجئے) گزشتہ بہتر برسوں سے ہمیں اچھا سچا پاکستانی اور مسلمان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ان کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے ذرا گھر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر گلی میں دو اور دیکھ لیجئے جواب مل جائے گا۔
کوئی ان بزرگوں کو سمجھائے کہ کثیر القومی اور کثیر المسلکی ملک کے تقاضے ون نیشن اسٹیٹ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تاکہ مزید نقصانات نہ ہوں۔
بات بجٹ سے شروع ہوئی تھی دوسری طرف نکل گئی مگر کیا کیا جائے یہ موضوعات بھی موجود ہیں گزشتہ روز کے انقلابی اور عوام دوست بجٹ کے بعد سناٹا ہے ۔
کاروباری طبقہ کا ایک حصہ کچھ مدوں میں ود ہولڈنگ ٹیکس ‘ سیلز ٹیکس او ردیگر ٹیکسوں میں چھوٹ پر خوش ہے ۔ کیوں نہ ہو کورونا کے باعث ٹیکس میں چھوٹ کی اور اب رعایت۔
خیر وہ ہمارے دوست اور سکہ بند استاد ماسٹر مشتاق احمد پوچھ رہے ہیں جب پاکستان میں الیکٹرانک کاریں بنتی ہی نہیں تو ٹیکس میں چھوٹ کیوں دی گئی؟ عرض کیا تین آدمی اس کے بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں اولاً وزیر اعظم ثانیاً وزیر خزانہ اور ثالثاً پشاور زلمے والے جاوید آفریدی ۔
اس سے آگے ہماری زبان بندی ہے ۔
بہر طور وفاقی بجٹ پر بحث بلکہ بحثیں دلچسپ ہیں حامیوں اور ناقدین کے درمیان ہوتی جملہ بازی اس سے بھی دلچسپ ‘ جن معاشی مشکلات سے ملک دوچار ہے اس سے نجات کی صورت کیا ہو گی اور خصوصاً بجٹ خسارہ کیسے پورا ہو گا یہ تو خیر آنے والا وقت بتائے گا۔
بجٹ اور سیاست سے دور عام آدمی کے حالات ہیں وہ دن بدن دگر گوں ہوتے جارہے ہیں تکرار ہو جاتی ہے مگر عرض کرنا پڑتا ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن سارے فساد کی جڑ ہے ۔ جس فی کس آمدن میں اضافہ ہو چکنے کی نوید ہمارے وزیر خزانہ صاحب دے رہے ہیں وہ کس ملک میں ہوئی یہ بھی بتا دیتے تو اچھا تھا۔
آخری بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع لیہ سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مجید نیازی نے دو وفاقی وزراء کی پشت پناہی سے قومی اسمبلی کے ایوان میں بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران جو سوقیانہ اور بازاری جملے اچھالے وہ اصل میں ہیں تو تحریک انصاف کی نفرتوں بھری سیاست کا رزق مگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ
اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر