دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب ؟_ سلیم انسب کا جوابِ دعویٰ||حیدر جاوید سید

مبارک باد قبول فرماٸیں کہ اس ہٹ دھرمی کے ماحول میں آپ نے مکالمہ کی راہ ہموار کرنے کا تردد کیا ہے ۔ سراٸیکی تحریک آج کی پیداوار نہیں ہے ۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلیم انسب سرائیکی وسیب کے معروف شاعر اور دانشور ہیں ، سرائیکی قومی سوال ، سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب کے ضمن میں ہوئی حالیہ بحث کے حوالے سے انہوں نے اپنے موقت کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیا آپ اسے سلیم انسب کا جوابِ دعویٰ بھی قرار دے سکتے ہیں اس جوابِ دعویٰ میں کچھ تلخی ضرور ہے لیکن ہیں تاریخی حقائق وہ لکھتے ہیں
سلام علیکم مرشد !
مبارک باد قبول فرماٸیں کہ اس ہٹ دھرمی کے ماحول میں آپ نے مکالمہ کی راہ ہموار کرنے کا تردد کیا ہے ۔ سراٸیکی تحریک آج کی پیداوار نہیں ہے ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سراٸیکی شعراء اور ادباء نےاس تحریک کو اپنے خون پسینہ سے سینچا ہے ۔ سراٸیکی تحریک کی آبیاری میں علامہ نسیم طالوت ۔ محمد کریم تونسوی ۔ خاور جسکانی ۔ شبیر حسن اختر ۔ میر حسان الحیدری ۔ فیض محمد خان فیض ۔ مرید حسین راز جتوئی ۔ کیفی جام پوری اور دوسرے اکابرین (یہاں سب کے نام لینا ممکن نہیں) نے اپنی زندگیاں وقف کر کے اس تحریک کے لٸے ان تھک کام کیا ۔ جب احمد بشیر نامی پنجابی شاٶنسٹ نے روزنامہ امروز کی 21 فروری 1970ء کی اشاعت میں سراٸیکی زبان بارے ہرزہ سراٸی کرتے ہوٸے سراٸیکی کو پنجابی کا لہجہ قرار دیا تو کیفی جام پوری نے جوابی کالم لکھ کر اپنےجرات مندانہ موقف سے اسے جواب دیا ۔ اور جب روزنامہ مساوات کے 03 اگست 1970ء کے شمارے میں شفقت نامی پنجابی لکھاری نے اس قسم کی جسارت کی تو پھر بھی کیفی جام پوری نے ہی اخبار کو لکھا
” مکرمی ! پاکستان بننے کے بعد جب علاقاٸی زبانوں پر توجہ دی جانے لگی تو اہلٍ لاہور نے پنجابی زبان کی سرپرستی کے سلسلے میں ایک شوشہ یہ بھی چھوڑ دیا کہ سراٸیکی اور صوبہ پنجاب کی دوسری زبانوں کا اپنا الگ کوٸی وجود نہیں ۔ یہ سب پنجابی زبان کی شاخیں ہیں۔ اس پر ہم سراٸیکی بولنے والوں نے صداٸے احتجاج بلند کی اورعلمی و لسانی حیثیت سے ثابت کر دیا کی سراٸیکی کا پنجابی سے کوٸی تعلق نہیں لیکن لاہوری حضرات نہ مانے اور ایک ہی رٹ لگاٸے رکھی ۔ ہمارے بار بار للکارنے پر انہوں نے چپ سادھ لی ۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد ان حضرات نے پھر پر پرزے نکالنے شروع کیے ۔ چانچہ روزنامہ مساوات کی حالیہ اشاعتوں میں وہی پرانا اور غلط تاثر دینے کی کوشش کی گٸی ہے ۔ اسی اخبار کے 03 اگست 70ء کے شمارہ میں جہاں ہم پر گند اچھالا گیا ہے وہاں یہ غلط بیانی بھی کی گٸی ہے کہ خواجہ فرید پنجابی شاعر تھے ۔ شفقت صاحب اور ان کے ہمنواٶں کو معلوم رہے کہ اس قسم کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا جاٸے گا ۔ ہم سراٸیکی بولنے والے کبھی بھی پنجابی شناخت کو نہیں اپنا سکتے ۔ مناسب ہے کہ وہ اس قسم کا انتشار پھیلانے سے باز آ جاٸیں“ ۔
یہ تھے سراٸیکی تحریک کے ابتداٸی خدو خال یاد رہے ہم اپنے بزرگوں کے دکھلاٸے ہوٸے راستے پہ گامزن ہیں ۔ یہ جہانگیر مخلص ۔ ریاض عصمت ۔ رفعت عباس ہیں جنہوں نے سرکاری ملازم ہونے کے باوجود بلا خوف و خطر سراٸیکی کا علم بلند کیا ۔ یہ عزیز شاہد ہے جس نے دوران ملازمت ” اساں پہلے صرف سراٸیکی پٍچھے پاکستانی “ کا نعرہ مستانہ بلند کیا ۔ عاشق بزدار نے اساں قیدی تخت لہور دے کا سلوگن دیا ۔ یہ اسلم رسول پوری ہیں جنہوں نے ملازمت کے دوران سراٸیکی کے نام پہ صعوبتیں برداشت کیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ لڑکے بالے اٹھ کر سراٸیکی پارٹی بنا لیتے ہیں ۔
ایسی ایسی پارٹیاں وجود میں آ چکیں جن کی نہ کوئی رکنیت سازی ہے اور نہ مرکزی عہدیدار پورے ہیں میں چٸیرمین میں کارکن اللہ اللہ خیر سلا ۔ دعوے یہ کہ میرے علاوہ کسی اور کو سراٸیکی سوال کی سمجھ بوجھ ہی نہیں ۔ نہ لوگوں سے رابطہ نہ سیاست سے واسطہ ۔ یاد رکھیں صرف فیس بک پہ سراٸیکی صوبہ بناٶ سراٸیکی صوبہ بناٶ کی پوسٹوں سے صوبہ نہیں بنے گا ۔ منزل کے حصول کے لٸے یونٹ سازی کی ضرورت ہے اس کے لٸے قوم سے مسلسل رابطہ میں رہنا ہو گا ۔ گذشتہ دنوں میں اپنے شہر کے علاقہ محب شاہ میں ایک قل خوانی کی محفل میں شریک تھا میرے ساتھ بیٹھے دو آدمی محوٍ گفتگو تھے ایک بولا
” لو جی مارکا کہتے ہیں نیا صوبہ بناٶ ہمارا مریض یہاں ایڑیاں رگڑ رہا ہو اور ہم پاسپورٹ بنواتے پھریں“ آپ تو اب تک اپنے لوگوں کو صوبہ اور ملک کا فرق تک نہیں سمجھا سکے ۔ بابا ڈیرے پہ بیٹھ کر بیان جاری کرنے کی بجاٸے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے لوگوں سے آپ کا رابطہ نہیں ۔سیاسی عمل کا آپ نے باٸیکاٹ کرنا ہے ۔ سیاستدانوں سے آپ نے مل کر نہیں بیٹھنا ۔ ملکی سیاست سے آپ کو سروکار نہیں ۔ قانون سازی جو ہو ہوتی رہے ۔ مہنگاٸی بارے آپ نے نہیں بولنا ۔ داخلہ خارجہ پالیسی سے آپ کا لینا دینا نہیں ۔ اور دعویٰ ہے سیاسی پارٹی ہونے کا ۔ غصے میں ہیں کہ پی ڈی ایم نے ہمیں شامل نہیں کیا ۔ یاد رکھیں جی ایم سید ۔ پلیجو ۔ اچکزٸی نے سیاست میں کردار ادا کیا ہے تو انہیں تسلیم کیا گیا ۔ ساٸیں حیدر جاوید سید کو بھی مکالمہ کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت اس لٸے پیش آٸی کہ لمحمہ موجود میں سوشل میڈیا پر ایک پارٹی اور ایک مہان سراٸیکی شاعر کی تضحیک کا جو سلسلہ جاری ہے شاید مکالمہ سے اس کا کوٸی حل نکل سکے ۔ میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا صرف ایک پارٹی نے اپنی پانچویں تنظیم کا نام جنوبی پنجاب رکھا ہوا ہے ۔ باقی جتنی بھی پارٹیوں نے اپنی اپنی پارٹی کی پانچویں تنظیم قاٸم کی ہے کیا اس کا نام جنوبی پنجاب نہیں ہے ۔
کیا پیپلز پارٹی کا یہی جرم ہے کہ وہ اپنی پانچویں تنظیم کے عہدوں کے لٸے سراٸیکی شعراء اور ادباء کو فوقیت دیتی ہے ۔ کیا صرف وہی ایک شاعر مجرم ہے جسے ایک پارٹی نے اپنی پانچویں تنظیم کی صدارت کا اعزاز دیا ہے ۔ کیا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی حمایت اور عمران نیازی ۔ پرویز مشرف ۔ خسرو بخیار ۔ بلخ شیر مزاری کے گلے میں اجرکیں ڈالنا اور ان کی جنوبی پنجاب جنوبی پنجاب کی تقریروں پہ تالیاں پیٹنا اور سو دن کا جنوبی پنجاب والا وعدہ یاد دلانا حلال اور شاعر کا عہدہ قبول کرنا حرام ہے ۔ شعراء اور ادباء پہ تو آپ کا جبر ہے کہ یوں نہ کرو یوں کرو ۔ وہاں جاٶ وہاں نہیں جانا لیکن آپ پہ کسی ضابطہ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ آپ کے شعراء نے پلاک کے ایوارڈ اور لاٸف ٹاٸم اچیومنٹ اعزاز ٹھکراٸے ۔ اگر کسی نے وصول کر لیا تو آپ نے اسے لعنتی ۔ غدار اور بیغیرت کے تمغے دیے ۔
اور اگر کسی نے لیا ہوا ایوارڈ واپس کر دیا تو آپ نے اس کے سر پر سوا تین گز کا کپڑا لپیٹ کر بہت بڑا احسان کر دیا ۔ رفعت عباس آپ کے انہی رویوں سے مایوس ہو کر خاموشی سے اپنے حصے کا کام کیے جا رہا ہے ۔ اسلم رسول پوری نے سیاست سے ریٹاٸرمنٹ کا اعلان کر دیا ۔ سراٸیکی شاعر ادیب کی اگر کہیں پہ عزت افزاٸی ہو جاٸے تو آپ کو قبول نہیں لیکن آپ نے کبھی ان کے زخموں پہ مرہم رکھنے بارے بھی سوچا ہے ۔ دو درجن سے زاٸد سراٸیکی پارٹیاں قاٸم ہیں کسی ایک پارٹی کو بھی توفیق نہیں کہ اپنے شاعر اور ادیب کی فلاح کے لٸے پارٹی میں ونگ بناٸے ۔ میں ایک ذمہ دار ادبی تنظیم کا سیکرٹری جنرل ہونے کے ناطے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ اگر آپ کا یہی رویہ تو شعراء و ادباء اپنے راستے کے انتخاب میں آزاد اور خود مختار ہیں ۔
واسلام
نیازمند
سلیم انسب

یہ بھی پڑھیں:

About The Author