حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی قومی سوال، سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب، ان سطور میں ان تمام دوستوں کی آراء من و عن پیش کیں جنہوں نے لگی لپٹی کے بغیر اپنا موقف بھجوایا۔
پیپلزپارٹی چونکہ متعدد بار کی حکمران جماعت ہے اس لئے ایک دو دوستوں کے سوا کسی نے اس موضوع پر بات کرنا گوارہ کی نہ درست غلط کوئی رائے دی۔
البتہ پی پی پی کے ہم خیال "وسیبی اہل دانش” کا ایک گروپ جو اختلاف رائے پر غلیظ گالیاں دینے کا ماضی رکھتا ہے سوشل میڈیا پر حسب سابق گمراہ کن خیالات کا پرچار کرنے میں مصروف ہے۔
ایک گروپ جو ہمارے نوجوان عزیزوں پر مشتمل ہے وہ پیپلزپارٹی کو مقامی مذہب و عقیدے کے طور پر پیش کرتے ہوئے ادب آداب فراموش کردیتا ہے۔ یہ بات اجتماعی حوالے سے ہے ورنہ ذاتی طور پر مجھ طالب علم کو ان سے کوئی شکایت نہیں۔
ہم آگے بڑھتے ہیں۔
سابق وزیراعظم سینیٹر مخدوم سید یوسف رضا گیلانی (قائدحزب اختلاف سینیٹ آف پاکستان) نے گزشتہ دنوں ملتان میں سرائیکی صوبہ کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔
ان کی گفتگو کی ویڈیو اور پھر گفتگو کو تحریری شکل میں فراہم کرنے پر پی پی پی کے رکن اور اپنے عزیز سید ندیم بخاری کا شکر گزار ہوں۔
جناب گیلانی، اس وقت وزیراعظم تھے جب پیپلزپارٹی نے گلی محلوں میں عشروں سے ہوتے الگ صوبے کے مطالبہ کو پارلیمان میں پیش کیا اور بات کو آگے بڑھایا۔
کوئی تسلیم کرے نہ کرے حقیقت اور تاریخ یہی رہے گی کہ یہ پیپلزپارٹی اور سید یوسف رضا گیلانی ہی تھے جو سرائیکی صوبہ کا معاملہ پارلیمان میں لے کر گئے اور اس ضمن میں جو بن پڑا کیا۔
اس سے انکار کوئی کور چشم ہی کرے گا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے ملتان میں جن خیالات کا اظہار کیاوہ کچھ یوں ہیں۔
اعتراضات اٹھانے والوں کی اکثریت کو پتہ ہی نہیں کہ صوبہ بنانے کا طریقہ کار کیا ہے۔
جس صوبہ میں نیا صوبہ بننا ہو اس صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔ تحریک انصاف تین سال سے برسراقتدار ہے، پنجاب اسمبلی میں الگ صوبے کی قرارداد لائے۔ دوستوں اور دشمنوں (سرائیکی صوبہ کے حوالے سے) کا عوام کو پتہ چل جائے گا۔
سیدی کہتے ہیں ہم نے اپنے دور میں قومی اسمبلی سے اس ضمن میں قرارداد منظور کروائی تھی پھر پارلیمانی کمیشن بھی بنوایا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے بطور وزیراعظم سرائیکی قوم پرست رہنما تاج محمد خان لنگاہ کو غیررسمی مشیر مقرر کرکے ان سے درخواست کی کہ وہ پارلیمانی کمیشن اور سرائیکی عوام کے مختلف طبقات کے درمیان رابطہ کاری کے فرائض انجام دیں تاکہ سرائیکی وسیب کے دانشور، ادیب، سیاستدان، صحافیوں، صنعت کاروں، قوم پرستوں اور دوسرے سٹیک ہولڈروں کو پارلیمانی کمیشن کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
مرحوم تاج محمد خان لنگاہ،شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی تھے، سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے ان کی جدوجہد تاریخ سازاور مثالی تھی وہ اسلام آباد میں میرے گھر (وزیراعظم ہائوس) میں مقیم رہے اور انہوں نے خوش اسلوبی کے ساتھ ذمہ داریاں نبھاکر تاریخ بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔
سیدی گیلانی کے مطابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں قائم پارلیمانی کمیشن نے اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ پیش کی۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس رپورٹ کو حاصل کرکے دیکھے اور عوام کے سامنے رکھے۔ کمیشن کی محنت اور رپورٹ قابل ستائش ہے۔
پیپلزپارٹی نے سینیٹ سے سرائیکی صوبہ کے قیام کی قرارداد دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کروائی۔ قومی اسمبلی میں چونکہ ہمارے پاس اکثریت نہیں تھی اس لئے حتمی قانون سازی نہ ہوئی۔ مجھے فخر ہے کہ مجھ سے پہلے منتخب ایوانوں میں سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے کسی نے آواز بلند کی نہ متحرک کردار ادا کیا۔
اس کے باوجود کہ سینیٹ میں ہمیں اکثریت حاصل نہیں تھی (یہاں ہم سے مراد پی پی پی ہے) سرائیکی سینیٹر بھی ایک تھیں محترمہ خالدہ محسن قریشی پھر بھی کامیابی ملی۔
سید یوسف رضا گیلانی نے پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی پیش کردہ قرارداد کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ جب پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبہ (جنوبی پنجاب) کے لئے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی تو مسلم لیگ (ن) بہاولپور صوبہ کی قرارداد لے آئی۔
پنجاب اسمبلی نے دو صوبوں کیلئے قراردادیں منظور کرلیں۔ سیدی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کہتی ہے کہ ہمارے پاس قومی اور پنجاب اسمبلی میں عددی اکثریت نہیں کہ ہم الگ صوبے کی قرارداد لاسکیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا پچھلے تین سالوں کے دوران کسی نے پیپلزپارٹی یا مجھ سے اس حوالے سے رابطہ کیا کہ ہم سرائیکی صوبے کی قرارداد لانا چاہتے ہیں۔ پپلزپارٹی ہماری حمایت کرے؟
میرے عزیز سید ندیم بخاری کی فراہم کردہ ویڈیو میں سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی صوبہ کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا کہ من و عن یہی ہیں جو آپ بالائی سطور میں پڑھ چکے۔
بولے گئے الفاظ کو ضبط تحریر میں لاتے وقت تھوڑی بہت تبدیلی لازمی ہے لیکن جذبات، تاریخ اور مفہوم تبدیل نہیں ہوا۔
سیدی گیلانی کی کسی بات پر دو آراء ممکن نہیں تقریباً یہی ہوا جو انہوں نے بیان کیا۔
پارلیمان سے باہر ان دنوں یہ ہوا کہ نواز لیگ نے کرائے کے مجاہد میدان میں اتارے۔
سرائیکی قومی سوال اور صوبے کی جدوجہد کو مسخ کرکے پیش کیا۔
محمدعلی درانی نامی ایک شخص کی خدمات حاصل کیں (یہ صاحب آجکل پیر پگاڑا کے لشکر میں شامل ہیں) اور انہوں نے اس عرصہ میں دو اہم کام کئے
اولاً انہوں نے بہاولپور صوبہ بنائو مہم چلائی پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
ثانیاً درانی پٹھانوں اور کچھ دوسرے پشتون قبائل جو سرائیکی وسیب میں مقیم ہیں، کاایک جرگہ بلایا اور سرائیکی صوبہ کے مطالبہ کو لسانی تعصب قرار دیتے ہوئے ایک مذمتی قرارداد بھی منظور کروائی
(یہ الگ قصہ ہے کسی دن جرگے کے انعقاد اور قرارداد کے پس منظر و ضرورت پر ایک کالم لکھوں گا)
یہ تلخ حقیقت ہے کہ (ن) لیگ نے کرائے کے مجاہدوں کے ذریعے سرائیکی قومی سوال اور صوبہ تحریک پر کیچڑ اچھلوایا۔
بدقسمتی دیکھیں جو سرائیکی سیاستدان (ن) لیگ کے پلیٹ فارم سے سرائیکی صوبے کی مذمت میں پیش پیش رہے پھر ایک دن چند ہی لمحوں میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بناکر بھریا میلہ لوٹنے کے لئے میدان میں اتر آئے۔
بہرطور سیدی یوسف رضا گیلانی کی گفتگو کو کالم کا حصہ بنانے کا مقصد تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنا ہے۔ فی الوقت یہی کچھ ہے باقی باتیں ہوتی رہیں گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر