جون 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلزپارٹی کا پنجاب کا مقدمہ|| آفتاب احمد گورائیہ

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی ناکامی میں جہاں بی بی کی شہادت کا عنصر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہاں اور بھی کافی سارے عوامل ہیںجن کی وجہ سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تشویشناک حد تک کم ہو گیا۰

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اپنا وزیراعلی دیکھے تقریباً چوالیس برس ہو چکے۰ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا، اسدوران نو قومی انتخابات ہو چکے جن میں سے 1985 والے انتخابات کا پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا اور ان میں حصہ نہیں لیا جبکہ 1988،1993 اور 2008 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنا وزیراعلی بنانے کی پوزیشن میں تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور پیپلزپارٹیکو یا تو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا یا اتحادی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۰ 1990 کا الیکشن پیپلزپارٹی سے مکمل طور پر چھین لیا گیا جس کی چوریکا مقدمہ آج بھی اصغر خان کیس کی صورت میں سپریم کورٹ کے کسی کونے کھدرے میں پڑا سسک رہا ہے، اس کیس کے مدعیاصغر خان اور اس ووٹ چوری کی شکار محترمہ بینظیر بھٹو شہید انصاف کا انتظار کرتے کرتے اگلے جہان چلے گئے۰ اس ساری تمہیدکا مقصد صرف یہ ہے کہ ان حقائق کو پنجاب کے عوام کے سامنے لایا جائے اور پیپلزپارٹی کا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کیا جائےکہ کیسے مقتدر حلقوں میں 1977 کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ پیپلزپارٹی جیسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور بائیں بازو کی قومی سطح کی واحدجماعت کو آئیندہ پنجاب میں اقتدار سے دور رکھا جائے کیونکہ پیپلزپارٹی جیسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے گڑھپنجاب میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۰ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب بتدریج انتہا پسندی کا شکار ہوتا چلا گیا اور آج صورتحال یہ ہےکہ تحریک لبیک جیسی انتہاپسند جماعت پنجاب کے ہر حلقے میں قابل ذکر ووٹ بینک بنا چُکی ہے۰ ان تمام برسوں میں مسلم لیگ کےمختلف گروپ جن میں مسلم لیگ نون، مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف جیسی پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتیں توپنجاب پر حکومت کرتی رہیں لیکن پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۰

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی زندگی تک تمام تر ناموافق حالات، مقتدرہ کی مخالفت، میڈیا ٹرائل اور پروپیگنڈے کے باوجود پیپلزپارٹی بار بارپنجاب کی ایک بڑی جماعت بن کر ابھرتی رہی۰ انیس سو نوے اور انیس سو ستانوے کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے باوجودپنجاب میں پیپلزپارٹی کا زور نہ توڑا جا سکا۰ لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمقتدرہ اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے تیسری قوت کے طور پر تحریک انصاف کو پاکستان کی سیاست میں اپنی ایک کنگزپارٹی کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو گئی۰ پیپلزپارٹی کی قیادت کو دو مرتبہ غیر طبعی طور پر منظرعام سے ہٹا دیا گیا جس کاپیپلزپارٹی کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن پیپلزپارٹی چونکہ ایک نظریاتی جماعت ہے جس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں اسلیے پیپلزپارٹی بہرحال اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ورنہ جن حالات سے پیپلزپارٹی گزری ہے بہت سی جماعتیں اپنا وجود کھودیا کرتی ہیں۰

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی ناکامی میں جہاں بی بی کی شہادت کا عنصر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہاں اور بھی کافی سارے عوامل ہیںجن کی وجہ سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تشویشناک حد تک کم ہو گیا۰ ان عوامل میں سب سے بڑا عنصر تو پیپلزپارٹی اوراس کی قیادت کے خلاف کیا جانے والا زہریلا پروپیگنڈہ ہے جس کے لیے ہر قسم کے میڈیا کو بے دریغ استعمال کیا گیا اور پیپلزپارٹیاس زہریلے پروپیگنڈے کا کبھی بھی خاطرخواہ توڑ نہیں کر سکی۰ کوئی ایک مقدمہ بھی ثابت نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ پیپلزپارٹی کےخلاف کرپشن کا زوردار پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا اور یہ پروپیگنڈہ کرنے میں وہ لوگ اور جماعتیں پیش پیش رہیں جن کا اپنا سارا وجود کرپشنمیں لتھڑا ہوا ہے اور جو خود کرپشن کے مقدمات میں سزایافتہ بھی ہیں۰ پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا ایک دلچسپپہلو یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے جھوٹے مقدمات بنانے والے نہ صرف جھوٹے مقدمات بنانے کا اپنا گناہ تسلیمکرچکے ہیں بلکہ زرداری صاحب کے پاوں میں گر کر معافی بھی مانگ چکے ہیں۰ ان تمام حقائق کے باوجود زہریلا پروپیگنڈہ آج بھیجاری ہے اور پنجاب کے بھولے عوام اس پر یقین بھی کیے بیٹھے ہیں۰ پیپلزپارٹی کی پچھلے چوالیس سال سے پنجاب میں حکومت آئیہی نہیں اس لیے پنجاب کے عوام کا پیپلزپارٹی سے کوئی شکوہ یا شکایت کرنا تو ویسے بھی نہیں بنتا۰

پیپلزپارٹی کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کے علاوہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے مقتدر قوتوں نے انتخابات میں ایک نئی انجنئیرنگمتعارف کروائی اور وہ تھی قومی جماعتوں کو صوبائی جماعتوں کے طور پر پیش کرنا۰ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے نتائج کا بغور جائزہلیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ جیسی قومی سطح کی جماعتوں کو سندھ اور پنجاب کی جماعتیں بنا دیا گیا۰ نلیگ کو تو اس سے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں کیونکہ پنجاب کے بڑا صوبہ اور زیادہ سیٹیں ہونے کی وجہ سے ن لیگ کو کوئی زیادہ فرق نہیںپڑتا لیکن اصل گیم یہ ہوئی کہ دونوں بڑی جماعتوں کو صوبائی سطح کی جماعتیں بنا کر تیسری جماعت تحریک انصاف کی انٹری کروا دیگئی۰ اس کے لیے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ریٹرننگ افسران کی مدد لی گئی تاکہ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے بوریا بستر گول کرکے سندھتک محدود کردیا جائے اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں آر ٹی ایس سے مدد لے کر بالآخر تبدیلی پراجیکٹ کو کامیابی سے حکومتتھما دی گئی۰

دو ہزار تیرہ کے انتخابات نے یہ بھی ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی سیاست نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لیے بیک فائر کیا کیونکہپیپلزپارٹی کا وہ ووٹر جو ن لیگ سے شدید مخالفت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا حمایتی تھا وہ ووٹر پیپلزپارٹی کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے نلیگ کی ضد میں تحریک انصاف کے پاس چلا گیا۰

اب موجودہ صورتحال میں جبکہ تحریک انصاف حکومت یا عمران خان پراجیکٹ تین سال میں ہی بدترین ناکامی سے دوچار ہو چکاہے۰ عمران حکومت کی نااہلی، بیڈ گورننس اور بدترین ناکامی کے بعد خاص طور پر پنجاب میں ایک بار پھر بہت بڑا خلا پیدا ہو چکاہے۰ پیپلزپارٹی کا تحریک انصاف میں جانے والا ووٹر تحریک انصاف سے متنفر ہو چکا ہے اور پیپلزپارٹی میں واپسی کے لیے پنجابمیں پیپلزپارٹی کے فعال کردار کا منتظر ہے۰ اب یہ پیپلزپارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی پنجاب کی عوام کی نبض پر ہاتھرکھتے ہیں اور پنجاب میں اپنی تنظیم مکمل کرکے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں۰ اس کے لیے پیپلزپارٹی کے پاس وقت کوئی زیادہنہیں ہے کیونکہ پنجاب میں تحریک لبیک جس طرح ہر حلقے اپنا اثرورسوخ بڑھا چکی ہے خطرہ ہے کہ ایسا ووٹر جو نظریاتی بھی نہیںہے، ن لیگ کا مخالف بھی ہے اور تحریک انصاف سے متنفر بھی ہے تو اگر پیپلزپارٹی نے اگر جلد ہی پنجاب میں اپنی سرگرمیاںشروع نہ کیں تو ایسا ووٹر پھر تحریک لبیک کی جھولی میں جا گرے گا۰

تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس بہترین موقع ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرےاور اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک دوبارہ حاصل کرے۰ پنجاب کی عوام اس کے لیے تیار بھی ہے جس کا ثبوت پی ڈی ایم کےگوجرانوالہ، ملتان اور لاہور کے جلسوں میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت ہے۰ گوجرانوالہ کے جلسے کےسلسلے میں چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی لالہ موسی سے گوجرانوالہ تک کی ریلی میں عوام کی بھرپور شرکت اور اس کے بعد ملتان کاجلسہ جن حالات میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اپنے زور بازو سے منعقد کروایا ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کے کارکن اور عوام چیرمینبلاول بھٹو زرداری کے کس شدت سے منتظر ہیں۰ دو ہزار اٹھارہ کی محدود انتخابی مہم کے بعد بہت کم ایسے مواقع آئے ہیں جبچیرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی صورت پنجاب کے کسی علاقے میں نکلے ہوں، شائد لالہ موسی سے گوجرانوالہ کی ریلی ہی واحدموقع تھا اور اس موقع پر جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ بڑے حوصلہ افزا تھے۰ ایسے علاقوں میں جو نون لیگ کا گڑھ سمجھے جاتے ہیںوہاں بھی چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہپیپلزپارٹی پنجاب میں ایک نئے سورج کی طرح دوبارہ طلوع ہو چکی ہے اور بی بی کی شہادت کے بعد اُجڑ جانے والا میلہ دوبارہ سج چکاہے، شہید رانی کے دور والی رونق بحال ہو چکی ہے اور پنجاب ایک دفعہ پھر چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کےجھنڈے تلے متحد ہو رہا ہے۰ جیالے چارج ہو چکے ہیں، مشکل وقت گزر چکا ہے اور پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے شاندار ماضی کیطرف لوٹ رہی ہے لیکن اس کے لیے ابھی بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۰ سب سے پہلے سنٹرل پنجاب کے لیے ایک تگڑےصدر کا انتخاب اور جلد از جلد نئی تنظیم کا اعلان کیا جانا بہت ضروری ہے۰ اسی طرح جنوبی پنجاب کی تنظیم میں دوست محمد کھوسہاور گیلانی برادران جیسے متحرک اور نوجوان سیاستدانوں کو ذمہ داریاں دیا جانا بھی اچھے نتائج دے سکتا ہے۰

تنظیم نو کے بعد سب سے زیادہ اہم اور ضروری کام چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کے کونے کونے اور شہر شہر جا کر عوامیرابطہ مہم چلانا، ورکرز کنونشنز سے خطاب اور کارکنوں سے ملاقات ہے۰ جس طرح گلگت بلتستان کے انتخابات کے موقع پر چیرمینبلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں تک پہنچے تھے۰ اسی طرح کی میراتھن رابطہ مہم پنجاب میں ناگزیر ہے۰ کم ازکم تحصیل کی سطح تک چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو خود جا کر عوامی رابطہ مہم کی قیادت کرنی چاہیے تب کہیں جا کر پیپلزپارٹی کوپنجاب میں دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۰ پارٹی تنظیم بے شک جتنی بھی فعال ہو لیکن ووٹر قیادت کی جانب ہی دیکھتا ہے اور ووٹپارٹی اور قیادت کے نام پر ہی ملتا ہے اور یہی حقیقت ہے۰ اک فعال پارٹی تنظیم کی افادیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن الیکشن جیتنے کے سب سے زیادہ ضروری چیز قیادت کا عوام سے براہ راست رابطہ ہے۰ اگلے انتخابات میں پنجاب میںانتخابی مہم کے لیے آصفہ بھٹو زرداری بھی اپنے بھائی کی مدد کر سکتی ہیں اور اس سے پیپلزپارٹی کو بہت فائدہ بھی ہونے کی توقعہے۰ اگلے انتخاب میں بظاہر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہی بڑا مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے تو ن لیگ کی مریم نواز کےمقابلے میں آصفہ بھٹو زرداری جن کو عکسِ بینظیر بھی کہا جاتا ہے پنجاب میں پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے بہت موثر ثابت ہو سکتیہیں۰ ملتان جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کو ملنے والی پذیرائی اس کا ایک واضح ثبوت ہے۰

پیپلزپارٹی کا پنجاب کا مقدمہ ایک مشکل مقدمہ ہے اور اسے جیتنے کے لیے مسلسل محنت، یکسوئی، درست لائحہ عمل، بہترین ٹیم اورقیادت کی توجہ درکار ہے۰ کارکن اور عوام یہ مقدمہ لڑنے کے لیے قیادت کی راہ دیکھ رہے ہیں۰ حُسن ظن یہی ہے کہ قیادت اپنیذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور پس پردہ یقیناً سٹریٹیجک پلاننگ ہو بھی رہی ہو گی، لائحہ عمل بھی مرتب ہو رہا ہو گا اورپنجاب کی تنظیم کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۰

امید ہے کہ پنجاب کے جیالے کارکن جلد ہی اپنی قیادت کے شانہ بہ شانہ تحتِ لاہور کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۰ پیپلزپارٹی کو ہرصورت پنجاب میں اپنا یہ مقدمہ جیتنا ہے کیونکہ صرف اسی صورت پنجاب میں عوامی راج آئے گا۰

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

%d bloggers like this: