وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر جون کا سورج آگ برسا رہا تھا۔ کمرے میں بے تکلف دوستوں کی مجلس تھی، بیشتر ثروت مند اور ایک آدھ نچلے متوسط طبقے کا قلم گھسیٹ۔ ایک عزیز بار بار ہمسایہ ملک کی معاشی ترقی کا حوالہ دے رہے تھے۔ معیشت کا حجم، زر مبادلہ کے ذخائر، سرمایہ کاری، غربت کی لکیر سے اوپر لائی گئی آبادی کی شرح اور فلک بوس عمارتوں کے تاحد نگاہ پھیلتے سلسلے۔ بالآخر ایک متفنی شریک محفل نے تاریخ کی بھول بھلیوں اور معیشت کے پیچ دار زاویوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے کچھ متعین سوال سامنے رکھ دیے۔ کیا ملک مذکورہ میں عوام اپنے حکمران منتخب کرنے میں آزاد ہیں؟ کیا حکومتی کارکردگی کی جواب دہی کا نظام موجود ہے؟ کیا عدالتوں میں منصفانہ سماعت کے مسلمہ معیارات کی پاسداری کی جاتی ہے؟ کیا صحافت آزاد ہے؟ وہاں کے اہل دانش میں منحرف ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے یا نہیں؟ اس پر ایک کے بعد ایک جواب نفی میں آیا تو حلقہ یاراں کا رنگ دیکھ کر سید ذوالفقار بخاری یاد آگئے۔ یہ برہم ہونے والی محفل یوں بھی برہم ہو جاتی / ہم کہہ کے ہوئے بدنام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے۔
سوال اٹھانے والے کا موقف تھا کہ معیشت کی حتمی کامیابی سیاست اور سماج کے شفاف بندوبست سے بندھی ہے۔ سیاست میں دستوری ضابطے قومی سمت کے استحکام کی ضمانت دیتے ہیں۔ عام طور سے آمریت کو استحکام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمی ہے۔ فرانکو کا 36 سالہ عہد ہو یا ماؤ کے 27 برس۔ آمریت استحکام کا فریب نظر ہے۔ طاقت کے بل پر قائم سکوت کے سناٹے میں بحران کا طوفان پرورش پاتا ہے۔ آمریت کی بنیاد میں رکھا یہ بھونچال کسی بھی وقت معیشت کو تہ و بالا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف سماج میں انصاف کا اخلاقی دھارا کمزور ہو تو استحصال، اجارہ، بدعنوانی، امتیازی سلوک اور غیرہموار معیار زندگی ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ بظاہر سرکاری رپورٹ مثبت بتائی جاتی ہے اور کاسہ لیس صحافت کے سرورق پر ننھے بچے، اٹھلاتی ہوئی نوجوان لڑکی یا روایتی لباس پہنے بوڑھے شخص کی تصویر ہمیشہ مسکراتی رہتی ہے لیکن آمریت صرف ناانصافی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کر سکتی ہے، ناانصافی کا احساس کسی بارودی سرنگ کی طرح مسلسل خطرے کا امکان برقرار رکھتا ہے۔
قوموں کے عروج و زوال میں ٹیکنالوجی کے ہزار امکانات موجود ہوتے ہیں۔ گھوڑے کی رکاب ہی کو لیجئے۔ چمڑے اور لکڑی سے بناوٹ کی مختلف صورتوں سے گزرتا یہ سادہ سا آلہ آٹھویں صدی عیسوی میں دھاتی رکاب تک پہنچا تو اس کے بطن سے جاگیردار یورپ کی چھ صدیوں نے جنم لیا۔ لوہے کی رکاب میں پاؤں جمائے رسالے کا جوان بھاری بھر کم زرہ بکتر پہن کر بھی اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگا سکتا تھا۔ بارود اور بندوق کی ایجاد سے قبل رکاب کو انسانی تاریخ میں آگ اور پہیے کے بعد سب سے انقلابی ایجاد سمجھا جاتا تھا۔ آج کسی نوجوان سے دریافت کریں گے تو شاید وہ ہمیں مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر اور روبوٹ کی مثال دے۔ لیکن ہماری نسل کی کیا پوچھتے ہیں۔ ہم نے فیکس مشین کو دنیا کی “تیز رفتار ترین ڈاک” کے طور پر متعارف ہوتے بھی دیکھا اور چند ہی برس میں متروک ہوتے بھی دیکھ لیا۔ ٹیکنالوجی انسان کے امکان کا محض ایک فیکٹر ہے اور اپنی پایئداری میں شاید زیادہ قابل بھروسہ نہیں۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو اہل یورپ کو نوآبادیوں کے خاتمے کا سوچ کر ہول آتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں جاپان کا ڈنکہ بجتا تھا۔ اسی کی دہائی میں یورپ کے نشاط کدوں میں عرب شہزادوں کا سکہ چلتا تھا۔ اگر زیر زمین تیل ہی ایندھن کے طور پر غیرضروری قرار پا جائے گا تو آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت باقی رہے گی؟ آپ جیسے اصحاب علم کو کیا یاد دلانا کہ تین صدی تک لڑی جانے والی صلیبی جنگوں کا بحیرہ قلزم کے تجارتی راستوں سے کیا تعلق تھا؟ دیکھئے، انسان کی حقیقی اور پائیدار ترین ایجادات صرف تین ہیں، زبان، علم اور انصاف۔ زبان نے آواز کو معنی عطا کر کے معاشرے کی بنیاد رکھی۔ علم نے دریافت اور ایجاد کے دروازے کھولے، انصاف نے امن اور آسودگی کی ضمانت دی۔ آج یہ قصہ اس لئے چھیڑا کہ درویش یہ سطریں لکھ رہا ہے اور قومی اسمبلی میں اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کا اقتصادی جائزہ سامنے آ چکا۔ حکومتوں کے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ 2019 میں تجارتی خسارہ کم تھا تو اسے کامیابی بنا کر پیش کر دیا۔ امسال تجارتی خسارہ زیادہ ہے تو اسے درآمدات میں اضافے کا نشان بنا دیجئے۔ محمد انور خالد نے لکھا تھا ، ’دل محرّر ہے سو کاغذ پہ مکاں رکھتا ہے‘۔ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 900 ارب روپے اور دفاع پر 1340 ارب کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ پنشن کی مد میں اخراجات کا تجزیہ سختی سے منع ہے۔ گزشتہ برس تعلیم کے لئے کل قومی پیداوار کا 1.9 فیصد رکھا تھا۔ نجانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے؟ گزشتہ برس بیرونی سرمایہ کاری کا بیشتر حصہ سی پیک کا مرہون منت رہا؟ وہی سی پیک جو چند برس قبل تک گیم چینجر تھا۔ اب شاید بازی پلٹ چکی۔
ایران، توران کے قصے تو آپ کی دل آسائی کا بہانہ ہیں۔ دراصل آپ سے سامنے کے کچھ سوال پوچھنا ہیں۔ کیا ہمیں اپنی انتخابی تاریخ پر اعتماد ہے؟ کیا ہمیں عدالتوں پر بھروسہ ہے؟ کیا ہماری حکومت اور حزب اختلاف میں دستور کے مطابق پارلیمان چلانے پر اتفاق ہے؟ کیا ہمارا صحافی خود کو محفوظ سمجھتا ہے؟ کیا مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں میں ملک چھوڑنے کا رجحان پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے اہل دانش اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں؟ بیرونی سرمایہ کار ہمارے ہاں آنے کے لئے اتاولے ہو رہے ہیں یا ہماری نوجوان نسل بیرون ملک ویزے کے لئے قطار بنائے کھڑی ہے؟ کیا ہمارے اہل ثروت کا معاشی اور قانونی دامن صاف ہے؟ کیا ہمارے غریب کو اپنے معیار زندگی میں بہتری کی امید نظر آتی ہے؟ مختصر یہ کہ ہمارا سماجی بجٹ کب پیش ہو گا؟
۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر