دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور بھی بدل گیا!||رسول بخش رئیس

بات تو درختوں سے چلی تھی۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں گھنے درخت‘ جن کے درمیان میں سے اکثر آپ آنکھ جھپکائے بغیر تیزی سے گزر جاتے ہیں‘ کئی دہائیوں کی محنت کا ثمر ہیں

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک عرصے کے بعد چند روز پہلے لاہور جانا ہوا تو ایسا لگا‘ اسے دیکھے صدیاں بیت گئی ہیں۔ جونہی ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب سے نہر والی سڑک پر گاڑی پل سے نیچے اتری‘ ایک گھنے باغ میں سے گزرنے کا احساس ہونے لگا۔ نہر کے کنارے اب زیادہ تر درخت ہیں اور دوسری طرف کی آبادیوں اور سڑک کے درمیان بھی ہر نوع کے درختوں نے ایک نئی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ نصف صدی پہلے جب ہم جامعہ پنجاب میں طالب علم تھے تو موجودہ کیمپس نیا بنا تھا۔ کیمپس کو شہر سے نکال کر یہاں مضافات میں لایا گیا تھا۔
 تب یہ علاقہ اصل شہر کا مضافات ہی بنتا تھا۔ اس کیمپس اور ماڈل ٹائون کے درمیان کھیت تھے اور اکثر ہم پیدل پگڈنڈیوں سے اس وقت کے ایک مشہور کیفے میں چائے پینے جایا کرتے تھے۔ اس وقت نہر کے ساتھ ساتھ بہت کم درخت تھے۔ کیمپس بھی تب اتنا پھیلا ہوا نہ تھا۔ نہر کی مغربی جانب سڑک نہیں تھی۔ مشرق کی طرف بھی سڑک زیادہ دور تک نہیں بنی تھی۔ کیمپس کے بعد میلوں تک کوئی آبادی نہ تھی۔ اس وقت کے مشہور گورنر غلام مصطفیٰ کھر صاحب نے کہیں دور دراز‘ نہر کے کنارے ‘کھر ہائوس‘ تعمیر کرایا تھا۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات کرنا تھی تو کہیں سے کئی میل پیدل چل کر وہاں پہنچا تھا۔ اب آبادیاں اور نہر کے ساتھ گھنے درخت جو آپ اکثر دیکھتے ہیں‘ اس وقت بالکل نہیں تھے۔ نیو کیمپس میں بھی تب کہیں کہیں درخت لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ شام ہوتے ہی اس علاقے میں سناٹا چھا جاتا تھا‘ البتہ کیمپس کی شامیں پُر رونق ہوتی تھیں۔ لانوں میں بیٹھ کر فلسفوں اور نظریات پر بحث مباحثہ اور نہر کے کنارے گھومنا تب ”آوارہ گردی‘‘ اور ”غیر اخلاقی‘‘ سرگرمیوں کے زمرے میں نہیں آتا تھا۔ کیمپس میں سختی کی فضا ایک طلبا تنظیم کے غلبے کے بعد پیدا ہوئی۔
بات تو درختوں سے چلی تھی۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں گھنے درخت‘ جن کے درمیان میں سے اکثر آپ آنکھ جھپکائے بغیر تیزی سے گزر جاتے ہیں‘ کئی دہائیوں کی محنت کا ثمر ہیں۔ فاصلہ تو معلوم نہیں‘ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں‘ ٹھوکر نیاز بیگ سے مال روڈ کی طرف چلتے جائیں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بہت بڑے پارک میں سے گزر رہے ہیں۔ ان میں آم‘ جامن‘ املتاس‘ پیپل‘ شہتوت اور نا جانے کتنی اور انواع کے درختوں اور چھوٹی جھاڑیوں کے جھنڈ شہر کے درمیان بہتی نہرِ لاہور کو ممتاز بناتے ہیں۔
مال روڈ پر چڑھیں تو قدیمی سایہ دار آسمان کو چھوتے پیپل کے پیڑ‘ جو تب چھوٹے تھے‘ اب ہر جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست نظر آتے ہیں۔ مال روڈ کو چوڑا کرنے کے کچھ نالائقوں نے ماضی میں منصوبے تو بنائے مگر شکر ہے کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر کوئی کبھی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو ہمارے ڈیرے درختوں کے تنوں کے ساتھ ہوں گے۔ کاش ہماری کوششیں اورنج لائن ٹرین منصوبے کے خلاف بھی کامیاب ہوتیں۔ کامل خان ممتازاور لاہور کی تاریخی شناخت‘ آثارِ قدیمہ اور تہذیبی ورثے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف دوسرے افراد نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کوئی شہر کا حلیہ بگاڑنے والے افلاطونوں سے پوچھے کہ لندن تو آپ کا دوسرا گھر ہے اور دنیا کا کون سا شہر ہے‘ جو آپ نے نہیں دیکھا‘ لیکن آپ نے کہیں ایسی بیہودگی دیکھی ہے؟ میٹروز زمین دوز ہوتی ہیں۔
 اس کے لیے وقت زیادہ درکار ہوتا ہے اور سرمایہ بھی‘ مگر لاہور جیسے عظیم تاریخی شہروں کی قدیمی شناخت کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ خوشی ہے کہ مال روڈ ابھی تک شوخی باز سیاست دانوں اور ان کے جی حضوری کرنے والے سرکاری گماشتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہے۔ باغ جناح کی رونقیں بھی کچھ الگ ہی ہیں۔ میں نے جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں کے بڑے بڑے شہر دیکھے ہیں‘ لاہور واقعی باغوں کا شہر ہے۔ بے حد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بڑے بڑے پارکس ہر سو پھیلتی نئی آبادیوں کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں۔ ہائوسنگ کے وسیع و عریض منصوبے ہوں یا سکیمیں‘ ان میں لاہور ماڈل ٹائون یا باغِ جناح کے سائز کا ایک بھی پارک نہیں۔ یہ کام ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے کرنا تھا۔ قانون بنایا جاتا کہ ہر سوسائٹی میں آپ اتنے فیصد حصہ پارکوں کے لیے مختص کریں گے۔ قانون ہے تو اس پر عمل کرایا جاتا۔
مغلوں اور انگریزوں کے دور کے پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے دیگر شہر صرف ہمارے لیے ہی نہیں‘ پوری دنیا کے لیے مثال ہیں‘ مگر ہماری بے لگام آزادیوں‘ حرص و ہوس کے مارے حکمرانوں اور ان کی خادم نوکر شاہی نے ہمارے شہروں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میں کس کس شہر کا رونا روئوں‘ ہر شہر میں ”کمپنی باغ‘‘ تھے‘ جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار سنبھالتے ہی بنائے تھے۔ یقین نہیں آتا تو جا کر دیکھ لیں‘ ان کا حشر مقامی حکومتوں اور ضلعی نوکر شاہی نے کیا کیا ہوا ہے۔ لاہور میں کچھ پُرانے باغات‘ اور نہر کے سرسبز کنارے ابھی باقی ہیں۔ پُرانے لاہور کے مرکزی علاقوں سے آپ کسی بھی طرف نکل جائیں‘ ہر طرف کنکریٹ کا جنگل نظر آئے گا۔
 تنگ گلیوں اور تنگ مکانوں کا لا متناہی سلسلہ۔ پارک تو دور کی بات ہے‘ درخت بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ سیاسی نعرے باز‘ جن کے پاس نصف صدی سے بھی کہیں زیادہ اقتدار رہا‘ انہوں نے لاہور کے لیے کیا کیا؟ اورنج لائن ٹرین کہتے کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی‘ مگر ان نالائقوں کو کچھ علم ہے کہ نیو یارک‘ شکاگو‘ لندن یا دنیا کا کوئی اور شہر ہو‘ ایک معمولی گھر سے لے کر کسی بڑی عمارت کی تعمیر تک کا منصوبہ منظور نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی شہری تعمیراتی شناخت سے مطابقت نہ ہو۔ دور دراز دیہاتوں میں بھی پرانے گھر گرانے کی اجازت نہیں۔ ان کی دوبارہ تعمیر ضروری ہو جائے تو بیرونی طرزِ تعمیر تبدیل نہیں ہونے دی جاتی۔ سوچتا ہوں‘ لاہور سے‘ ہماری اپنی دھرتی سے ہی کیسی کیسی نسلیں ہمارے اوپر غالب ہو چکی ہیں‘ جنہوں نے پُر فریب نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ مقصد لوٹ کھسوٹ ہے۔ نا جانے ہمارے اندر تہذیب اور شعور کی شمعیں کب روشن ہوں گی۔ کب ہم اجتماعی ورثے کی نگہبانی کر سکیں گے۔
لاہور کی شناخت اس کی قدیمی تاریخ‘ عمارات یا باغات تک محدود نہیں‘ اس کے ثقافتی رنگ‘ ادبی محفلیں‘ علمی ادارے‘ شاعر‘ ادیب‘ مفکر‘ نظریاتی اور سماجی تحریکیں‘ اخبارات‘ رسائل اور ہر نوع کی محفلیں تھیں۔ ہم جب طالب علم تھے تو ‘پاک ٹی ہائوس‘ ‘چائنیز لنچ ہوم‘ خوبصورت عمارت میں واقع مال روڈ کا ‘شیزان‘ اور نہ جانے کتنے اور چائے خانے تھے۔
 ادبی محفلوں میں شرکت کرتے۔ پاکستان کی تاریخ کی دو دہائیاں یعنی ساٹھ اور ستر کی دہائیاں بیداری اور کئی فکری تحریکوں کا زمانہ تھا۔ لاہور ہی سب سے بڑا مرکز تھا۔ اس دور کے نام لکھنا شروع کریں تو کئی صفحے درکار ہوں گے۔ کس کا نام لیں‘ کس کو الزام دیں‘ سب عوامی اور غیر عوامی حکمران فکری آزادیوں سے خائف تھے‘ اور اب بھی ہیں۔ لاہور کے باغات ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک میں‘ ایک ہی نوع کے درخت بد نما یکسانیت پیدا کریں گے۔ چمن تو بنتا ہی رنگ برنگے پھولوں‘ درختوں اور گلابوں سے ہے۔ معاشروں کی توانائی‘ تخلیقی صلاحیت اور فکری بالیدگی آزادیوں سے مرتب ہوتی ہے۔
 نصف صدی پہلے کے لاہور کی پہچان کھلے ذہن‘ نظریاتی تنوع‘ آزاد ثقافتی محفلیں‘ فلمیں‘ تھیٹر اور ادبی سنگتیں تھیں۔ اب یہ سب مدہم یا معدوم ہو چکا ہے۔ بہت کچھ یادوں میں ہے‘ جن کے سہارے جئے جا رہے ہیں۔ ماضی بھی ہمارے خوابوں میں رہتا ہے۔ ہمارے اس وقت کے زخموں کا مرہم بھی وہی لاہور کا ماضی ہے۔ اسی کی یاد اور تلاش میں پُرانے گلی کوچوں‘ چند باغات اور سڑکوں پہ نکلتے ہیں تو گزرا ہوا وقت آنکھوں میں سج کر رک سا جاتا ہے۔ ادبی محفلیں‘ ثقافتی رنگ خوشبو پھیلا جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author