محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بس کھڑی ہے جس کی آدھی سواریاں کراچی اور آدھی اس کی الٹی سمت پشاور جانا چاہ رہی ہیں۔ بس ایک ہے اور دو الگ الگ سمتوں میں جانے کے معاملے پر سواریاں تقسیم ہیں۔ دونوں طرف کی سواریوں کا بس پر نہ صرف پورا حق ہے بلکہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ بھی نہیں ہو سکتا اور بس کی کوئی انتظامیہ اور ڈرائیور بھی ایسا نہیں جو کوئی فیصلہ کر کے بس کو لے کر ایک طرف چل پڑے۔
ایسے میں سواریوں اور انتظامیہ کے علاوہ اس بس سٹینڈ کے ارد گرد کچھ ”غیرجانبدار“ لوگ بھی کھڑے ہیں جو بظاہر سٹینڈ والے کے خیرخواہ ہیں وہ بھی بظاہر کوششیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے مسئلہ حل ہو اور دونوں سواریاں کسی ایک سمیت یا حل پر متفق ہو سکیں لیکن دراصل ان کی کوششیں بھی اسی حد تک ہیں کہ مسئلہ تو حل نہ ہو بس ان کی چوہدراہٹ مانی جائے اور جو بھی حل نکلے وہ کم از کم ان کی مرضی اور مفاد کے خلاف نہ ہو۔
یہ ہے اس وقت کے افغانستان کی ساری کہانی، امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان پر حق رکھنے کے دو دعویدار موجود ہیں جن میں ایک افغان حکومت ہے اور دوسرے طالبان ہیں جو خود کو امریکہ کے جانے کے بعد سب سے زیادہ قانونی حکمران سمجھتے ہیں ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا ایسا نہیں جس کی بات کو سننا بھی ضروری ہو۔
ان دونوں دعویداروں کے مابین جو لڑائی چل رہی ہے وہ حکومت پر نہیں بلکہ طرز حکومت پر ہے۔ افغان حکومت جس کے سربراہ اشرف غنی ہیں اور وہ طالبان سے بھی چاہتے ہیں کہ وہ جنگ اور تشدد ترک کر کے ملکی آئین کے مطابق انتخابات میں حصہ لیں اور اگر لوگوں نے ان کو ووٹ دے دیا تو حکومت کا حصہ بن جائیں جبکہ دوسرا فریق طالبان ہیں جو افغان حکومت کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے اور امریکہ سے امن معاہدہ ہونے کے بعد اس خمار میں ہیں کہ چونکہ افغانستان پر قابض امریکی فوجی اتحاد نے جانے سے پہلے ان سے امن معاہدہ کیا ہے اس لئے وہ اس بیس سالہ جنگ کے بعد افغانستان پر حکومت اور اپنا طرز حکومت نافذ کرنے کے حقدار ہیں۔
ایک تو وہ افغان حکومت کو برابر کا فریق ہی نہیں سمجھ رہے اور کھلم کھلا کہہ چکے ہیں کہ جیسے ہی وہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسی دن سے یہاں وہی نظام ہوگا جو افغانستان پر امریکی حملوں کے وقت تھا یعنی امارات اسلامی کا نظام، جہاں پر سب کچھ اسے نظریے اور نظام کے تحت چلے گا جو وہ چاہیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً دوحہ قطر میں بعض معاملات یعنی انسانی حقوق، خواتین کے معاملات وغیرہ پر خود میں بعض تبدیلیوں کے اشارے بھی دے چکے ہیں۔
اب سب سے اہم اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ کون ان دونوں کو کسی بیچ کے راستے پر راضی کرے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ماضی قریب میں کسی کے پاس نظر نہیں آ رہا اور جو افغانستان کے معاملے کے قدرے کم اہم اور غیرملکی فریق ہیں ان میں سے کوئی اس مسئلے کے مستقل حل کی جانب کوئی مخلصانہ کوشش بھی کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ افغانستان کے اندر کے دو اہم ترین فریق افغان حکومت ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں اور غیر ملکی ایکٹر یا فریق اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنی بات منوا سکیں۔ یہ بات منوانی بھی صرف افغان فریقین کو نہیں بلکہ اس پوری دنیا سے ہے جو افغانستان کی نئی بنتی شکل سے اپنا خراج وصول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔
ایک قدم آگے چلتے ہیں تاکہ ان غیرملکی فریقین کا بھی کردار واضح ہو سکے، امریکہ جو واپس جاتا نظر آ رہا ہے لیکن کیا وہ حقیقت میں واپس جا رہا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے وہ افغان حکومت سمیت ہر اس گروہ یا فریق کو سپورٹ کرے گا جس کے ذریعے اس کی نظر اور اثر و رسوخ اس خطے پر قائم رہے اس لئے اس کا ہاتھ افغان حکومت کے سر پر نظر آ رہا ہے لیکن وہ افغان حکومت سے نبردآزما طالبان کے خلاف کوئی اقدام بھی نہیں کر رہا۔ افغانستان کے بائیس صوبوں میں جنگ جاری ہے اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ مستقبل قریب میں مزید پھیلے گا۔
زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں ایک وفد طالبان اور افغان حکومت کے مابین بات چیت کے لئے پھر افغانستان یا دوحہ پہنچ رہا ہے لیکن ان کوششوں کے بارے میں بھی ماہرین بہت زیادہ خوش گمان نہیں ہیں۔ دوسری جانب دوسرا بین الاقوامی فریق اور مستقبل کی سپر پاور چین ہے جو اس ساری صورتحال میں اپنے ارادوں کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہے لگتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ ہے.
چین، پاکستان اور افغانستان وزرا خارجہ اجلاس میں اس نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کے تحت وہ افغانستان میں طالبان کی مین سٹریمنگ یعنی انہیں قومی دھارے میں لانے کے خواہش مند ہیں جس کے لئے وہ پاکستان کے ساتھ مل کر مفاہمت کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ بین الافغانی مذاکرات نتیجہ خیز ہوں اور خطے میں امریکہ کے نکلنے کے بعد خانہ جنگی نہ ہو۔
افغانستان کے اندر بنتی نئی صورتحال کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے اور طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی بجائے تشدد بڑھانے میں اس کی مدد کرنے کی باتوں میں کتنی صداقت ہے اس کا جواب وزیراعظم عمران خان کے اس انٹرویو میں مل سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کے اچانک نکل جانے سے طالبان کو یہ تاثر ملے گا کہ وہ فاتح ہیں جس کے بعد پاکستان سمیت کسی کو بھی ان کو قابو میں لانا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کے اس بات میں بھی بڑا وزن ہے کہ افغانستان میں کسی نئی خانہ جنگی کے نتیجے میں سب سے پہلے پاکستان متاثر ہوگا جو ابھی اپنے پہلے لگے زخموں کو بھی مندمل نہیں کر پایا۔
چین اور امریکہ کے گرد اکٹھے ہوتے بین الاقوامی کریکٹرز میں سے سب کو ہی مستقبل قریب میں پوزیشننگ یا ری پوزیشننگ کرنی ہوگی جس کی وجہ افغانستان نہیں بلکہ خطے میں چین کے کاروباری منصوبوں خصوصاً سی پیک پر کام شروع ہوگا جس میں ترکی، ایران اور افغانستان کو شامل کرنے کے بعد اب روس بھی اس میں شامل ہو رہا ہے جبکہ خود امریکہ کے سابق اتحادی یورپی یونین کے پاؤں بھی اس بڑھتی تجارت میں ڈگمگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
خیر جو جہاں بھی جائے ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا ہوگا کہ جب تک افغانستان میں اس کے مستقبل کے طرز حکمرانی کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک کوئی بھی فریق ہتھیار گرانے اور اپنی پوزیشن بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوگا اور افغانستان یونہی بحران سے دوچار رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر