سہیل وڑائچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی اور طمانیت کی بات ہے کہ اچانک معاشی اشاریوں میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔ دو اڑھائی سال سے شرح نمو سے لے کر ہر ایک معاشی اشاریہ منفی یا کمزور رجحانات کا حامل تھا مگر اب اسٹاک مارکیٹ سے لے کر شعبہ زراعت تک ہر ایک میں بہتری کا رجحان نظر آنا شروع ہو گیا ہے مگر سیاست میں وہی ڈیڈلاک ہے، وہی منفی رویے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں ڈائیلاگ تک کے لئے تیار نہیں ہیں گویا معیشت میں بہتری آنے کے باوجود سیاست اب بھی بدتر جا رہی ہے۔
بجٹ کی آمد سے پہلے حکومتی حلقوں نے معاشی اشاریوں میں بہتری کی گردان شروع کر دی، اس اچانک بہتری پر خوشگوار حیرت ہوئی بعد ازاں ٹیکسٹائل، کنسٹرکشن اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار سے معیشت میں بہتری کی تصدیق ہونی شروع ہو گئی۔ مختلف فصلات اور زرعی شعبے میں بھی بہتری آئی اور وہاں خرید و فروخت میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا۔
معیشت میں بہتری اچھی خبر ہے مگر ریاست اور حکومت تب ہی آگے جا سکتے ہیں جب سیاست کے شعبے میں بھی ڈیڈ لاک ختم ہو، انتخابی اصلاحات کا عمل شروع ہو، دیگر قانون سازی ہو تاکہ نظام کی اصلاح ہو اور ہم بطورِ قوم آگے بڑھ سکیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست میں ابھی دور دور تک مذاکرات کا امکان بھی نہیں۔
دنیا میں ہر ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہیں، ان کے آپس میں اختلافات بھی فطری ہیں لیکن مہذب جمہوری ممالک اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں حکومت خارجہ پالیسی اور مالیاتی پالیسی سمیت ہر اہم ریاستی معاملے پر اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتی ہے، قانون سازی کے معاملے میں تو حکومت اور اپوزیشن میں مسلسل تعاون اور مشورہ جاری رہتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات کرتے ہیں تو وہ این آر او مانگتے ہیں جبکہ اپوزیشن یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دو عملی کیوں؟ حکومت کچھ عرصے سے قانون سازی پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کو ماضی میں ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نیب کے تحت گرفتاریوں کے بعد سے اپوزیشن اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ حکومت قانون سازی کے لئے تو تعاون چاہتی ہے لیکن گرفتاریوں یا مجموعی ماحول کے بارے میں حکومت اپوزیشن سے تعاون کے لئے تیار نہیں۔
سیاست کی دنیا ہو یا ہمارا سماج ، جب بھی کسی سے مذاکرات کئے جاتے ہیں تو اس وقت ماحول کو خوشگوار اور سازگار بنایا جاتا ہے۔ حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرنے کو تیار نہیں، اصولی طور پر تو اگر مذاکرات کرنے ہیں تو حکومت کو گرفتار اپوزیشن رہنمائوں کو رہا کرنا چاہئے اور پھر جا کر اپوزیشن لیڈرز سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ قانون سازی کے معاملے میں تعاون کریں۔ فی الحال حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے قانون سازی پر مذاکرات میں تاخیر ہو رہی ہے۔
سیاست کے ساتھ ساتھ ریاستی معاملات میں بھی اپوزیشن کو شریک نہیں کیا جا رہا۔ ہمارے پڑوس، افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہت بڑا واقعہ ہے جس کے نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے پر اثرات پڑیں گے۔ گاہے گاہے یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ افواج پاکستان نے افغانستان کے معاملات پر صلاح مشورہ کیا، یہ خبر بھی شائع ہو چکی کہ وزیراعظم کو افغان صورتحال پر بریفنگ دی گئی، ہونا تو یہ چاہئے کہ افغانستان کے مسئلے پر اپوزیشن لیڈرز کو بھی بریفنگ دی جائے تاکہ انہیں بھی یہ احساس ہو کہ وہ بھی ملکی معاملات کے مشورے میں شریک ہیں۔
اپوزیشن رہنما بھی حکومت کی طرح ملک کے منتخب لوگ ہیں جنہیں عوام نے منتخب کر کے پارلیمان میں بھیجا ہے۔ ریاست اور حکومت کو اگر ملک کے اندر سیاست میں بہتری لانی ہے تو اپوزیشن کو اس کا جائز مقام دیں، ریاستی بریفنگز میں اسے بلایا جائے اور اسے قومی ڈائیلاگ کا حصہ بنایا جائے۔
کسی ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی دیکھنی ہو تو معاشی اشاریوں کے علاوہ انسانی وسائل، جمہوری حقوق، آزادیٔ اظہار اور غربت کے پیمانوں کو دیکھا جاتا ہے۔ گو ابھی پاکستان میں معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن سیاست کے فرنٹ پر فی الحال بہتری کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر تو ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانی ہے تو پھر سیاست اور معیشت سمیت تمام محاذوں پر بہتری لانا پڑے گی۔
وزیراعظم عمران خان اس وقت بہت پراعتماد ہیں، معیشت میں بہتری کی خبروں نے انہیں اور مضبوط بنا دیا ہے۔ ان کے لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ سیاست کے پھٹے ہوئے دل کو بھی سینے کی کوشش کریں، حکومت اور اپوزیشن کا اختلاف تو ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑنا ہے۔ ضرورت اس بات ہے کہ اختلافات کے باوجود قانون سازی کے لئے ماحول بنایا جائے۔
اپوزیشن کے مذاکرات کی میز پر نہ آنے کی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں لیکن انہیں بھی چاہئے کہ وہ قومی ضرورتوں کا خیال کریں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک ٹیکنالوجی ہے ،بھارت میں انتخابات کے دوران یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے استعمال کی جا رہی ہے، ہمیں ٹیکنالوجی کو رد نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ٹیکنالوجی کو دوست بنانا چاہئے۔ اپوزیشن نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو رد کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر نظرثانی کرنی چاہئے اور انتخابی نظام کو جن جن طریقوں سے بہتر کیا جا سکتا ہے اس کی بہتری میں تعاون کرنا چاہئے۔
قانون سازی اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پہل البتہ ہمیشہ کی طرح حکومت کو ہی کرنی پڑے گی حکومت اس کے لئے سی بی ایم یعنی اعتماد سازی کے اقدامات کرے۔ ایک وزارتی ٹیم مقرر کرے جو اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں سے مذاکرات کرے، قانون سازی کی تفصیلات کو اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کو جاری کیا جائے۔ ان قوانین پر قومی بحث ہو اور اس کے بعد ان کو پارلیمان لے جایا جائے۔
یاد رکھا جائے کہ اگر سیاست اسی طرح تار تار رہی تو معیشت میں حاصل ہونے والی کامیابیاں کسی بھی احتجاج، جلوس، تحریک یا لانگ مارچ کے نتیجے میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ معاشی کامیابی برقرار رکھنی ہے تو سیاست کو بھی بہتر کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر