حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل اس ویڈیو پر بات کر لیتے ہیں جو گزشتہ سپہر دوستوں نے پشاور سے بھجوائی ہے۔ ویڈیو کیا ہے ہمارے نظام کا ”ماتم”ہے۔
پشاور میں یونیورسٹی اساتذہ تنخواہوں اور پنشن میں50فیصد کٹوتی پر احتجاج کرنے صوبائی اسمبلی کے باہر پہنچے، پرامن اور نہتے تھے۔ اُستاد کے پاس لاٹھی، بندوق یا تلوار تو ہوتی نہیں، وہ تو کتابوں اور درسگاہوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔
ان اساتذہ پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا، گرفتار کیا، دھکے دیئے، لاتیں ماریں، ان میں سے کچھ کے گریبان پھاڑے۔ یہ سانحہ دیکھ کر دُکھ ہوا، دکھ کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں عمومی سوچ یہ ہے کہ پولیس کے سپاہی اور ان کے وڈے تھانیدار زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، اس لئے شرف انسانی، سماجی اقدار وروایات سے ناآشنا ہوتے ہیں لیکن پولیس سروس آف پاکستان والے افسر ”بڑے خاندانی” پڑھے لکھے، مہذب ہوتے ہیں
مگر جو ویڈیو میرے پاس ہے یا سوشل میڈیا پرسفر کر رہی ہیں یہ ساری ویڈیوز بتاتی ہیں سپاہی سے ایس پی تک سبھی ایک جیسے ہیں۔
گزشتہ سہ پہر احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج کے دوران ایک ایس ایس پی کے عہدہ کے افسر اتنے پرجوش انداز میں بڑھ بڑھ کر للکارے مارتے اور حملے کرتے دکھائی دیئے تو اول اول میں سمجھا کہ پشاور پولیس نے ممبئی فتح کر لیا ہے اور اب بالی ووڈ کے مال غنیمت کیلئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا ثواب کمانے میں برتری کیلئے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہی ہے۔
قابل احترام اساتذہ کیساتھ یہ سلوک دیکھ کر دکھی ہوں، اس دکھ کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں اس خوش قسمت نسل کا فرزند ہوں جو آج بھی اُستاد کی جوتیاں سر پر رکھ کر چلنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
میں روزانہ شب کو سونے سے قبل اپنی آپا جان کی دی ہوئی تربیت کے مطابق دعائے شب پڑھتا ہوں۔ اپنے والدین، آپاجان مرحوم اساتذہ اور کچھ رخصت ہونے والے احباب کی مغفرت کی دعا لازمی پڑھتا ہوں۔
میرے اساتذہ میں سے جناب اکرم شیخ حیات ہیں۔ لاہور پریس کلب میں یا کہیں بھی ملاقات ہو میں ان کے گھٹنے چھو کر احترام سے ملتا ہوں۔
اساتذہ پر تشدد سے دکھ کی وجہ یہی عقیدت اور احترام ہے،
چند برس قبل معروف ماہرتعلیم جناب ڈاکٹر انوار احمد لاہور میں ایک علمی تقریب سے خطاب کیلئے تشریف لائے، دوران تقریب ہمارے لاہوری دوستوں نے ان سے ہمارا تعارف کروایا۔ طالب علم بے اختیار جھکا، ان کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر دونوں ہاتھ سینے سے لگائے اور سرائیکی روایات کے مطابق ہاتھ باندھ کر آداب کیا۔
علم وکلام کے اس آفتاب نے آگے بڑھ کر طالب علم کو سینے سے لگا کر شفقت کا اظہار کیا، پھر پوچھا! آپ میرے شاگرد رہے ہیں؟ عرض کیا حضور آپ میری جنم بھومی ملتان کے ہزاروں طلباء وطالبات کے اُستاد محترم ہیں، اس رشتے سے آپ کا ادب واحترام واجب ہے۔
یہ سطور لکھتے وقت مجھے پروفیسر انوار احمد کی بھیگی آنکھیں یاد آرہی ہیں، انہوں نے بہت محبت اور شفقت سے نوازا مجھے۔
اساتذہ ہوتے ہی احترام کیلئے ہیں۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم مشتاق احمد ہمارے دوست ہیں، برسوں سے احترام بھرا تعلق ہے۔ وہ کٹر نون لیگی بلکہ مجاہد سول سپرمیسی ہیں، ان کے نزدیک ہم جیالے ہیں، اُستاد جی سوشل میڈیا پر بھی دوست ہیں، وہ اکثر پیپلزپارٹی اور اے این پی کیلئے سخت الفاظ استعمال کر جاتے ہیں، ہم جوابی حق استعمال کرتے ہوئے بھی یہ نہیں بھولتے کہ وہ ایک معلم ہیں اور نئی نسل کی تربیت ملازمت کی وجہ سے نہیں اپنے صادق جذبوں کی وجہ سے کرتے ہیں۔
لیکن گزشتہ سہ پہر ایس ایس پی کے منصب پر فائز پولیس افسر کے حملوں اور پشتو میں اساتذہ کیلئے بولے گئے الفاظ پر گہرا دکھ ہوا۔
ہم دکھ کا اظہار ہی کرسکتے ہیں کیونکہ یہ تشدد کسی مہذب معاشرے میں ہوا ہوتا تو ایس ایس پی صاحب کل شام کے گھر جا چکے ہوتے۔
اساتذہ کیساتھ گزشتہ روز جو بیتی اس پر دکھ کے اظہار میں کالم کا بڑا حصہ اس ”المیہ” کو دینا پڑا، چلیں اور باتیں کرتے ہیں، سیاست کا موسم بھی آج کل اچھا چل رہا ہے، پی ڈی ایم کا کریاکرم بھی ہوگیا۔
پی ڈی ایم بنانے والی پارٹی (پی پی پی) کو اے این پی کے ہمراہ اتحاد سے نکال دیا گیا ہے، اب انشاء اللہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سول سپرمیسی انقلاب برپا ہوگا۔
میرے کچھ دوست کہتے ہیں، اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ہوئی ایک ”بلاگر” کی مرمت اور پھر اس پر ہوئے احتجاج اور بعض تقاریر سے انقلاب کو نقصان پہنچا ہے۔
انقلابی نہیں مانتے ہیں لیکن سول سپر میسی کی رضیہ سلطانیہ محترمہ گل بخاری نے بلاگر کی مرمت کے پیچھے کی اصل کہانی سنا کر انقلاب کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
اس طور یہ سوال اہم ہے کہ ایک اینکر (اس کا تعلق لاہور سے ہے) اور اسلام آبادی بلاگر کے جھگڑے اور مرمت والے پروگرام کو خفیہ ایجنسیوں سے جوڑ کر جھوٹی کہانی پر انقلابی گیت گانے کی کیا ضرورت تھی؟
ہمارے عظیم انقلابی قائد میاں نوازشریف کو کسی تاخیر کے بغیر ان افراد کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے جن کی جھوٹی کہانیوں سے انقلاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر