جام ایم ڈی گانگا
03006707148
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم اور صحت وہ بنیادی ضروریات اور سہولیات ہیں جو کسی ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی میں اہم بنیادی کردار ادا کرتی ہیں.کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات تاریک تاریخ اور سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے سرائیکی وسیب کو ہر دور حکومت میں اہم اور میگا منصوبہ جات میں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے. زبانی کہنے،سیاسی اعلانات اور کبھی کسی نمائشی طور پر فنڈز مختص کرنے کے حد تک خطہ سرائیکستان کے اضلاع کے لیے دھونگ رچائے جاتے رہے ہیں. ہنوز وہ سلسلہ چولی اور کُرتی بدل کر آج بھی پُھرتی کے ساتھ جاری ہے. سرائیکستان صوبہ تحریک میں اضافے کی وجہ اگرچہ حکمرانوں کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی محسوس ہوتی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ دہائیوں کے استحصال اور لویکی، پسماندگی اور ہس، افتادگی کو دور کرنے کے لیے جس قسم کے ہنگامی اور ترجیحی اقدامات کی ضرورت ہے وہ آج بھی نہیں کیے جا رہے. حکمران جماعت تحریک اور اُن کا دُم چھلہ میرا مطلب ہے صوبہ محاذ، اپنا صوبہ اپنا اختیار والے ٹھگ باز سیاست دان جنھوں سرائیکی وسیب کے عوام سے حکومت کے پہلے سو دن میں اپنے علیحدہ صوبے کے حوالے خوشخبریاں سنائی تھیں آج وہ بدبخت کچھ اور طرح کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں.اپنے صوبے سے نیچے بہت نیچے گرا کر لولھے لنگڑے سول سیکرٹریٹ تک آن پہنچے ہیں کیسا کمال سیکرٹریٹ ہے جس کی ایک ٹانگ ملتان اور دوسری ٹانگ بہاول پور میں ایسے رکھی ہے جیسے پرانے زمانے کی جنگ میں استعمال ہونے والی ناکارہ توپوں کو کسی پارک، چوک یا چوراہے میں رکھا جاتا ہے. یہ ایک علیحدہ اور بذات خود لمبا ٹاپک ہے اس سیاسی کامیڈی ڈرامے پر پھر کبھی کھل کر تفصیل سے بات کریں گے. آج میں ضلع رحیم میں سردار عثمان بزدار حکومت کی جانب دیئے جانے والے کچھ صحت کے منصوبہ جات پر بات کرنا چاہتا ہوں.جس طرح تنقید برائے اصلاح، تنقید برائے تلافی وقت کی ضرورت ہے اسی طرح کسی کے اچھے اقدام اور فیصلے کو تسلیم کرنا، سراہنا بھی یقینا مثبت سوچ حوصلہ افزائی والا عمل ہے.
محترم قارئین کرام،، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی حکومت نے رحیم یارخان میں حضرت حمیدالدین حاکمؒ سرجیکل ہسپتال کی منظوری اور فنڈز جاری کرکے ضلع رحیم یارخان میں ٹیچنگ ہسپتال کی کمی کو کسی حد تک پورا کر دیا ہے. ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں نے قومی وسائل سے بننے والے ہسپتالوں کو اپنے نام منسوب کرنے کی بجائے علاقے کی مذہبی و دینی، علمی و ادبی، سماجی شخصیات کے نام منسوب کرکے بہت ہی مثبت سوچ کا حامل اچھا فیصلہ کیا ہے. حضرت شیخ حمیدالدین الدین حاکمؒ حضرت ابو بن ادھم کے بعد دنیا وہ دوسری عظیم ہستی ہیں جنھوں بادشاہی کے تخت و تاج کو چھوڑ کر درویشی کی راہ اختیار کی تھی. آپ کی آخری آرام گاہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے بھی قبل کا تاریخی قلعہ مئو مبارک شریف بھی محکمہ آثار قدیمہ پاکستان کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے. مخادیم کی مخالفت کی ہرواہ کیے بغیر حکومت پاکستان اور حکومت پنھاب کو اس عظیم تاریخی ورثے کی بحالی و مرمت کے کام پر دھءان دینا چاہئیے.شیخ زاید میڈیکل کالج کے ساتھ بننے والے ٹیچنگ ہسپتال کا نام ُ ُ حضرت حمیدالدین حاکمؒ سرجیکل ہسپتال ٗٗ رکھنے کا حکومتی فیصلہ قابل تعریف ہے.
قارئین کرام،، 24فروری2021کو منظور کیے جانے والے اس ہسپتال پر 6822.68ملین روپے خرچ ہوں گے. اس منصوبے کے لیے 2700ملین روپے کے فنڈز ریلیز کیے جا چکے ہیں 30جون 2023ء تک اس منصوبے کو مکمل کرکے فنکشنل کیا جانا ہے. اللہ کرے کی فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہے تاکہ یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو کر عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی چین کا حصہ بن سکے.جس طرح کوئی سانپ کا ڈسا شخص رسی سے ڈرتا ہے اسی طرح سرائیکی وسیب اور ضلع رحیم یارخان کے عوام کے اندر بھی ڈر سا رہتا ہے. بے نظیر شہید کیڈٹ کالج خانپور، سعشل سیکیورٹی ہسپتال آدم والی مسلم چوک رحیم یارخان، رحیم یارخان انڈسیریل اسٹیٹ سمیت ایسے کئے منصوبے ہیں جو ڈبل ٹائم گزر جانے کے باوجود بھی مکمل نہیں ہوئے یا نہیں ہونے دیئے گئے.کیونکہ ان کا مختص فنڈ تخت لاہور کے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کےلیے واپس اٹھا لیا جاتا رہا ہے. خیر چھوڑیں سرائیکی خطے اور یہاں کے عوام کے ساتھ کیے جانے والے استحصال کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں. آج ہم حکومت کے ایک اچھے اور فلاحی منصوبے کا ذکر کر رہے ہیں. بتایا گیا ہے کہ حضرت حمیدالدین حاکمؒ سرجیکل ہسپتال 448بیڈز پر مشتمل ہوگا. ہسپتال کے چودہ وارڈ ہوں گے اور ہروارڈ میں 32بیڈ ہوں گے. یہ تین منزلہ ہسپتال ہوگا. گراؤنڈ فلور پر فارمیسی، ریڈیالوجی، بلڈ بنک، ایڈمن اینڈ سٹاف، کانفرنس روم، او پی ڈی اور سروس اریا فسٹ فلور پر آپریشن تھیٹر، ای این ٹی اوپتھالوجی، سینکڈ فلور پر جنرل سرجری، نیورو، سرجری، وغیرہ تیسرے فلور پر آرتھوپیڈک، برن، پالاسٹک سرجری کے سعبہ جات ہوں گے تمام فلورز پر ساتھ ساتھ کلاس روم بھی ہوں گے
بزدار حکومت کا رحیم یارخان میں صحت کے حوالے سے ایک اور منصوبہ بھی قابل ذکر اور قابل تعریف ہے. اے ڈی پی میں 346نمبر پر موجود ہے. ابھی تک اس منصوبے کی حتمی منظوری تو نہیں ہوئی. توقع اور امید یہی ہے کہ بہت جلد یہ منصوبہ بھی باقاعدہ منظوری کا مرحلہ طے کرکے عملی کام کی طرف آگے بڑھ سکے گا. پائیلٹ پروگرام حب اینڈ سپوک ماڈل کے نام سے ظاہر پیر میں تجویز کیا جانے والا یہ ہسپتال وقت کی اشد ضرورت ہے. سی پیک منصوبے سے جڑے ہوئے اس صحت کے منصوبے کے لیے یقینا ظاہر پیر ہی ضلع بھر میں سے بہترین اور آیڈئیل جگہ ہے.قومی شاہراہ کے ایل پی روڈ ضلع کا سنٹر مقام اور سی پیک انٹرچینج کے علاوہ ضلع راجن پور کے عوام بھی رحیم یارخان کی عوام طرح برابر مستفید ہو سکیں گے.بتایا جا رہا ہے کہ اس منصوبے پر 2515.18ملین روپے خرچ آئیں گے. یہ 60بیڈ پر مشتمل جدید سہولیات سے مزین ٹراما سنٹر اور دو منزلہ جنرل ہسپتال ہوگا. جو31جنوری 2023ء تک مکمل کرکے فنکشنل کر دیا جائے گا.
قبل ازیں بزدار صوبائی حکومت نے رورل ہیلتھ کمپلیکس میانوالی قریشیاں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دے کر اسے اپ گریڈ کیا ہے جس کا کام تیزی سے جاری ہے.اپنے محل وقوع اور لوکیشن کے لحاظ سے یقینا یہ ہسپتال بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے. کیا ہی اچھا ہوتا کہ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بڑے بڑے ناموں والے مخادیم میانوالی قریشیاں ہسپتال کے کچھ مزید زمین عطیہ یا قیمتا دے دیتے. ہسپتال کی جگہ خاصی کمی ہے. اللہ تعالی مخدوم نور مصطفی ہاشمی کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے جھنوں نے رورل ہیلتھ کمپلیکس کے لیے موجود جگہ عطیہ دی تھی. یہ ہسپتال سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین کے والد سابق صوبائی و وفاقی وزیر مخدوم حمید الدین نے اپنے دور حکومت میں بنوایا تھا.مخدوم صدام حسین اپنے داد کی یاد کو تازہ کرتے اور ان کی روح کو ایصال ثواب کی نیت سے ہسپتال سے ملحقہ اپنی زمین میں کچھ عطیہ کر دے. ویسے یہ نیک کام سابق ایم پی اے مخدوم شرف حسین ہاشمی یا مخدوم روشن چراغ ہاشمی کے صاحبزادے بھی کر سکتے ہیں. میری دعا ہے کہ اللہ ان میں سے کسی کو یہ توفیق عطا فرمائے صدقہ جاریہ کا کام ہے. میں سوچ رہا ہوں کہ کل کی طرح آج بھی میانوالی قریشیاں میں مخادیم گرلز اور بوائز کالجز بنوانے سے کیوں خائف ہیں. وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت پہلی بار اپنے حلقہ جات میں اعلی تعلیمی ادارے منظور ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہے.یہ اچھا عمل ہے. کاش وہ میانوالی قریشیاں کے غریب عوام کو بھی یہ حق دلائیں اپنے بابا قبلہ مخدوم رکن الدین رکن عالم کی چھوڑی ہوئی جاگیر پر ایک بوائز اور ایک گرلز کالج بنوا دیں.میانوالی قرشیاں علاقے کا صرف سیاسی مرکز ہی نہیں سماجی و معاشی مرکز بھی ہے. فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میانوالی قریشیاں میں اعلی قسم کا ایک ووکیشنل انسٹیٹیوٹ بھی منظور کروا دیں.پائیلٹ پروگرام کے تحت ظاہر پیر میں بننے والے حب اینڈ سپوک ہسپتال کو میرا مشورہ ہے کہ ضرور کسی مقامی شخصیت سے منسوب کریں. خواجہ فریدؒ، مولانا سراج احمدؒ، مولانا خورشید احمدؒ، صوفی یار محمدؒ میں سے کوئی ایک نام دیں. تاکہ اپر پنجاب کے حکمرانوں کی دی ہوئی قبضہ گیرانہ سوچ اور عمل کو روکا جا سکے.ویسے صوبہ بھر میں خواجہ فریدؒ کی جائیداد و زمینیں ہی محکمہ اوقاف پنجاب کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ حکومت کو ایک حصہ مل رہا ہے اس کے باقی سات حصے بذریعہ بندر بانٹ چوری ہو رہے ہیں
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر