نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا مالکان کے نور نظر صحافی ،حکمران طبقہ اور نظریاتی بیانیہ||عامر حسینی

حقیقی صحافتی ٹریڈ یونین ازم اس وقت ان دونوں دھڑوں کا نصب العین نہیں ہے اور نہ ہی یہ دونوں دھڑے میڈیا ہاؤسز میں حقیقی ٹریڈ یونین سیاست چاہتے ہیں -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میرے ایک سینئر صحافی دوست نے کل اسلام آباد سے مجھے کال کی اور پھر وہ کہنے لگا:
بورژوازی میڈیا کے مالکان کے نور نظر صحافی حکمران طبقے کی باہمی تقسیم سے جنم لینے والی لڑائی کو ہمیشہ "نظریاتی بیانیہ” سے رنگتے ہیں اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ اپنی صحافتی سرگرمیاں کسی عظیم مشن کے تحت سرانجام دے رہے ہیں –
جنگ-جیو اور ڈان میڈیا گروپ سے وابستہ کئی "سورما” صحافی پہلے دن سے نواَز لیگ کی جنگ لڑرہے ہیں
جبکہ دوسری جانب اے آر وائی نیوز، سماء نیوز، دنیا نیوز، 92 نیوز جیسے گروپ کے ملازم صحافی سلیکٹر اور سلیکٹڈ کی جنگ لڑرہے ہیں
دیکھا جائے تو یہ پنجابی حکمران طبقے کی باہمی سرپھٹول ہے، نواز شریف بھی اسی طبقہ کا ایک رکن ہے – پنجابی اسٹبلشمنٹ (ریاست کے جملہ انتظامی و عدالتی اپریٹس) تقسیم ہے اور اسی تقسیم کو ہم جمہوریت بمقابلہ قومی سلامتی کی لڑائی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں-
حامد میر، عاصمہ شیرازی اور ان جیسے دوسرے لوگ جب بھی شیر کی طرح دھاڑیں سمجھ لیں پیچھے تھپکی ہے –
پی ایف یو جے کے جس دھڑے کی جانب سے ملک بھر میں جو احتجاج منظم ہوا، اُس دھڑے کی قیادت صحافیوں کی اشراف بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے اور یہ سب کے سب ملک کے اُن طاقتور بڑے میڈیا مالکان کے منظور نظر ہیں جن کا اتحاد نواز کیمپ کے ساتھ ہے
جبکہ پی ایف یو جے کا دوسرا بڑا دھڑا سلیکٹر اور سلیکٹڈ کے ساتھ کھڑے میڈیا گروپوں کے منظور نظر مالکان کا چہیتا ہے
حقیقی صحافتی ٹریڈ یونین ازم اس وقت ان دونوں دھڑوں کا نصب العین نہیں ہے اور نہ ہی یہ دونوں دھڑے میڈیا ہاؤسز میں حقیقی ٹریڈ یونین سیاست چاہتے ہیں –
اسلام آباد میں صحافی اسد طور پر حملے کیخلاف ملک بھر میں احتجاج
پاکستان میں آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ دونوں اطراف کی اشراف بیوروکریسی سے ہے جو پاکستان میں حکمران طبقات کے مفادات کی لڑائی سے پیدا تقسیم کو نظریاتی رنگوں سے بھرتے ہیں…..
یہ سب سن کر میں نے اُن سے سوال کیا:
تو کیا ہم اسد علی طور پہ ہوئے حملے کے خلاف خاموش ہوجائیں؟
تو ہمارے وہ سینیئر صحافی کہنے لگے:
یہ میں نے کب کہا، میں تو خود آج والے احتجاج میں شامل تھا اگرچہ میں نے پی ایف یو جے کے عہدے داروں سے یہ ضرور پوچھا تھا کہ جس بڑے پیمانے پہ اور جس طریقے سے چند ایک صحافیوں پہ حملوں کے کیسز پہ ردعمل آیا یہ ردعمل ہر ایک جائز کیس پہ کیوں نہیں آتا؟ اور ایسے بیانات اُس موقعہ پہ وائرل کیوں نہیں ہوتے؟ "

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author