نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’واٹس ایپ‘‘ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی بھارت کی مودی سرکار کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی ہے۔سوشل میڈیا چلانے والی ایک طاقت ور ترین کمپنی اور بھارتی حکومت کے درمیان جو قضیہ شروع ہوا ہے اس کا انجا م تاریخ ساز عالمی اثرات کا حامل ہوگا۔اگر مودی سرکار جیت گئی تو آمریت کے جبر سے رہائی کے خواہش مندوں کو اپنا پیغام ریاستی نگاہ سے بچ بچاکر پھیلانے والوں کو ’’محفوظ‘‘ پلیٹ فارم میسر نہیں رہیں گے۔یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ دور حاضر میں حتمی اختیار نجی سرمایہ کاروں کی بنائی کاروباری اعتبار سے انتہائی کامیاب کمپنیوں کو منتقل ہوگیا ہے یا ’’قومی ریاست‘‘ اب بھی سب پر بالادست ہے۔
چین کے برعکس بھارت مگر ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے۔ 1990کی دہائی سے جنوبی بھارت کے بنگلور اور حیدر آباد جیسے شہر کمپیوٹر سے متعلق بے تحاشہ کمپنیوں کے مرکز بھی بن چکے ہیں۔گوگل کی طرح بھارت نے انٹرنیٹ کے استعمال کے لئے مثالی طورپر ایک ’’سرچ انجن‘‘ بھی تیار کرلیا ہے۔ گوگل اور اس کے ذریعے سماجی رابطے کی دیگر ایپس کے استعمال کے عادی ہوئے صارفین کو مگر ’’مزہ‘‘ نہیں آرہا ۔وہ ٹویٹر،فیس بک اور واٹس ایپ سے چمٹے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا کامل اجارہ نہیں رہا۔ ہندو انتہا پسند بیانیے کو اس وقت انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب علی گڑھ یونیورسٹی کے بچے اور بچیاں مسلمانوں کے خلاف واضح تعصب دکھاتے شہریت والے قانون کے خلاف 2019میں سڑکوں پر آگئے۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ سے ابھری کسان تحریک نے بھی سوشل میڈیا پر مودی سرکار کو غریب دشمن دکھانا شروع کردیا۔ کرونا کی وبا نے مگر ان تحاریک کو غیر مؤثر بناڈالا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’’ذہن سازی‘‘ والی ’’مہارت‘‘ نے اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
کرونا کی وبا نے مودی سرکار کو طلبہ اور کسان تحاریک سے تو بچادیا مگر حال ہی میں ابھری کرونا کی نئی لہر نے اسے وبا ہی کے حوالے سے مکمل طورپر بے بس بھی دکھایا۔مودی سرکار نے اپنے تئیں ایک سخت گیر لاک ڈائون کے ذریعے مذکورہ وبا پر ’’قابو‘‘ پانے کا دعویٰ کیا۔اس کے ہاں کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین بھی متاثر کن تعداد میں تیار ہونا شروع ہوگئی۔اس تعداد کے بل بوتے پر بھارتی سرکار نے اپنے چند ہمسایہ اور افریقہ کے غریب ملکوں کو یہ ویکسین تحفتاََ فراہم کی۔ کرونا کی دوسری لہر مگر بہت شدت سے نمودار ہوگئی۔ بھارتی صحت عامہ کا نظام اس کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ ’’سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ والے سرکاری پیغام تسلی دینے کے بجائے سفاکانہ سنائی دینا شروع ہوگئے۔ ٹویٹر پر مسلسل لگائے پیغامات کے ذریعے تمام عالم میں یہ خبر پھیل گئی کہ بھارت کے کئی اہم شہروں کے ہسپتالوں میں آکسیجن میسر نہیں۔ کرونا کے مریضوں کے لئے بستر بھی موجود نہیں رہے۔اس کی زد میں آئے سینکڑوں بدنصیب سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی کی بازی ہارتے نظر آرہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کرونا کی دوسری وبا کی بدولت ابھرے مناظر نے مودی سرکار کو حواس باختہ بناڈالا ہے۔’’ستے خیراں‘‘ کا پیغام دینے والے ریاستی اعدادوشمار کی اب کوئی ساکھ نہیں رہی۔ مودی سرکار اسی باعث بضد ہے کہ ریاستی کنٹرول سے آ زاد اطلاعات فراہم کرنے والے ’’متبادل‘‘پلیٹ فارموں کو ابتری وخلفشار پھیلانے کا باعث قرار دیا جائے۔
مودی سرکار کو مگر بخوبی علم تھا کہ کرونا کے ہاتھوں بدحال ہوئے بھارت کے حقیقی مناظر کو ’’تخریبی‘‘ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ٹویٹر پراس ضمن میں لگائے پیغامات کی بے پناہ اکثریت بلکہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی کاوش تھی۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارموں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اس نے بنیادی طورپر ’’دہشت گردی‘‘ کے چند سنگین واقعات کے حوالے دینا شروع کردئیے۔ واٹس ایپ کو اس تناظر میں کلیدی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جو نیا قانون اس نے متعارف کروایا ہے وہ واٹس ایپ کو مجبور کرے گا کہ اس کی سہولت استعمال کرنے والے ’’دہشت گرد‘‘ کی فوراََ نشان دہی کردے۔
’’دہشت گردی‘‘ نے ریاستوں کو اپنے شہریوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے نظر بظاہر ٹھوس جواز فراہم کئے ہیں۔امریکہ جیسے ملک مگر سوشل میڈیا کو اس کاذمہ دار ٹھہرانے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔اس برس کا آغاز ہوتے ہی لیکن 6جنوری کے دن امریکی پارلیمان پر سماجی رابطوں کی ایپس کے ذ ریعے مشتعل ہوئے ہجوم نے حملہ کیا تو ان ایپس کو قابو میں لانے کی فریاد شروع ہوگئی۔ ریاست کو مگر اس ضمن میں اختیار دینے کو امریکی عوام کی اکثریت ابھی تک تیار نہیں ہورہی۔تقاضہ ہورہا ہے کہ ٹویٹر اورفیس بک چلانے والی کمپنیاں اپنے طورپر ایسا بندوبست کریں کہ نفرت بھرے پیغامات ان کے پلیٹ فارموں پر موجود نہ رہیں۔ مودی سرکار مگر اپنے لئے کامل کنٹرول حاصل کرنے کی ضد میں مبتلا ہوچکی ہے۔ایک عالمی کاروباری کمپنی اور مودی سرکار کے درمیان جاری ہوا قضیہ کئی حوالوں سے اہم ترین ہے۔ہمیں بھی اس پر نگاہ رکھنا ہوگی۔
بشکریہ: نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر