نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ میں پی ڈی ایم کا جی ڈی اے سے اتحاد||حیدر جاوید سید

سول سپرمیسی کی جدوجہد اب اس مرحلہ پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ایک اتحاد پی ڈی ایم نے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس70 بدین کے ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد میں شامل جی ڈی اے کے اُمیدوار شاہد ورک کی حمایت کا اعلان کیا ہے،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سول سپرمیسی کی جدوجہد اب اس مرحلہ پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ایک اتحاد پی ڈی ایم نے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس70 بدین کے ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد میں شامل جی ڈی اے کے اُمیدوار شاہد ورک کی حمایت کا اعلان کیا ہے،
پی ڈی ایم کی ایک جماعت جے یو آئی(ف) قبل ازیں سندھ اسمبلی کے تین ضمنی انتخابات بشمول لاڑکانہ کے دوران پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے مشترکہ اُمیدواروں کی حمایت کر چکی، اب پی ڈی ایم اتحاد نے سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف اتحاد جی ڈی اے کی حمایت کی ہے۔
یہ جی ڈی اے اتحاد وہی ہے جس کے بارے میں قبل ازیں مسلم لیگ ن کا مؤقف تھا کہ یہ اتحاد ”خفیہ طاقتوں نے بنوایا ہے” غور طلب بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل پیپلزپارٹی نے کی (بقول مریم نواز ومولانا فضل الرحمن) مگر اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلوں کی حمایت پی ڈی ایم کر رہا ہے۔
ان سطور میں اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں قبل ازیں عرض کرچکا ہوں کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے اختلافات کو بظاہر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے منصب سے جوڑا جارہا ہے مگر درحقیقت یہ پیپلزپارٹی کی طرف سے اپوزیشن کے مجوزہ لانگ مارچ سے قبل استعفے نہ دینے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کسی کو یقین دہانی کروا چکے تھے کہ پیپلزپارٹی کو سندھ اسمبلی سے استعفے دینے پر راضی کر لیں گے اور یہ کہ ہمیں (پیپلزپارٹی کو) یہ اطلاع مل چکی تھی کہ نون لیگ کے کچھ معاملات کسی سطح پر طے ہوچکے ہیں،
خیر اگر ہم پیپلزپارٹی کے مؤقف کو محض الزام بھی سمجھ لیں تو بھی بعد کے دنوں میں سامنے آئے معاملات نے اس مؤقف کی تصدیق کردی، مثلاً محترمہ مریم نواز نے کہا
”ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے”
محمد زبیر والی کہانی پچھلے کالم میں عرض کر چکا، مکرر لکھنے کی ضرورت نہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ سے نون لیگ کا میڈیا سیل اور اس کے ہمدرد 1984ء کی ایک تصویر لگا کر آصف علی زرداری کیخلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، یہ تصویر نوابشاہ سندھ کی ضلع کونسل کے چیئرمین سید شوکت علی شاہ کی ہے جو چیئرمین ضلع کونسل کی حیثیت سے اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کا استقبال کر رہے ہیں۔
نون لیگ میڈیا سیل اور ہمدردان شوکت شاہ کو حاکم علی زرداری بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تب میاں نوازشریف جنرل غلام جیلانی کی پنجاب کابینہ میں وزیرخزانہ ہوا کرتے تھے۔
پاکستانی سیاست میں جھوٹ کا کاروبار چونکہ منافع بخش رہا ہے، اس لئے سچائی پر چاندماری کی جاتی ہے۔
ہمارے کامریڈ میاں نوازشریف کی پہلی سیاسی جماعت تحریک استقلال تھی، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ان کی فیکٹری اتفاق فونڈری شریف خاندان کو واپس کی گئی تو نہ صرف فیکٹری پر بنکوں کے قرضے معاف کر دیئے گئے بلکہ 6کروڑ مالیت کی نئی مشینری کا حق دار بھی اتفاق فونڈری کو قرار دیا گیا۔
یہ بہرطور ماضی ہے اور یہ بھی کہ جب میاں صاحب کی سیاست فوجی حکومت کی چھتری میں پروان چڑھ رہی تھی تب پیپلزپارٹی اور حکومت مخالف اتحاد ایم آر ڈی کے کارکنان ریاستی جبر وستم سہہ رہے تھے۔
حیرانی والی بات یہ ہے کہ نون لیگ کے ذمہ داران اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء کو سندھی اجرک پہنانے والے شخص کا نام شوکت شاہ ہے، حاکم زرداری نہیں لیکن پھر بھی پروپیگنڈہ جاری ہے۔
سندھ اسمبلی کے حلقہ 50بدین میں ضمنی انتخابات کیلئے پی ڈی ایم جی ڈی اے اتحاد یقیناً ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہوگا، خیر یہ پی ڈی ایم کا معاملہ ہے۔
پی ڈی ایم کی موجودہ حالت زار پر وہ پرانا دیہاتی لطیفہ یاد آتا ہے جب ایک دیہاتی میلہ دیکھ کر گاؤں واپس پہنچا تو گاؤں والوں نے حسب روایات میلہ کا احوال سننا چاہا، دیہاتی نے جواب دیا، میں تو یہ سمجھ پایا ہوں کہ میلہ ویلہ کچھ نہیں بس میرا کمبل چرانے کا سامان تھا۔
پیپلپزپارٹی بھی آج کل دیہاتی کی طرح کہتی پھرتی ہے، پی ڈی ایم سندھ اسمبلی خالی کروانے کا ذریعہ تھا اب اور کیا کہیں۔
اب چلتے چلتے یہ جان لیجئے کہ راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے، ایک وفاقی وزیر اور ایک مشیر کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ میں جو رد وبدل کیا گیا اس سے بیوروکریسی میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔
بیوروکریسی کے ذرائع اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کئے گئے تو اس منصوبے میں اہم شخصیات کی مداخلت کے ثبوت میڈیا کو فراہم کر دئیے جائیں گے۔
غالباً اس دھمکی کے بعد وفاقی حکومت کو کہنا پڑا کہ غلام سرور خان اور وزیراعظم کے ایک اہم مشیر کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author