نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جہانگیر ترین نہ شہبازشریف، صِرف عمران خان||ملک عاصم ڈوگر

عمران خان کو اپنا بیانیہ مزیدمضبوط کرنےکا موقع میسرآجائے گا۔حسب توقع وہ اس کوکرپشن کا گٹھ جوڑ قرار دیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کا پشاور میں تقریب کے دوران نام لئے بغیریہ کہنا کہ سارے مافیاز بھی اکٹھےہوجائیں تواین آراونہیں دوں گا

مستقل عنوان : منقلب

کالم نگار : ملک عاصم ڈوگر

Twitter:@asimdogar76

mmadogar@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہانگیرترین گروپ کی تحریک انصاف اورعمران خان سے مبینہ بغاوت پراپوزیشن ایک جانب خوش ہے توساتھ پریشان بھی ہے۔ خوش اس بات پر ہے کہ بالآخر تحریک انصاف میں موجود گروپنگ اب صف بندی کی صورت میں سامنےآگئی ہے۔جونقصان پوری پی ڈی ایم مل کر نہیں کرپائی شاید ترین گروپ کرجائے۔لیکن پریشانی یہ ہےکہ اگرایسا نہ ہوسکا توعمران خان مزید طاقتورہوں گے۔تحریک انصاف کے اندردوبارہ کسی کوباغیانہ طرزعمل اختیار کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔

اس سارے منظر نامے کولےکرمختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ مبینہ خبر بھی زیر گردش ہےکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے ترین گروپ سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ اور یہ کہ عنقریب جہانگیرترین اورشہباز شریف کے درمیان کسی ملاقات کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ویسے تو ایسی ملاقات کا امکان بہت کم ہے۔جہانگیر ترین ایک زیرک سیاستدان کے ساتھ سمارٹ بزنس مین بھی ہیں اوراپنا ہرقدم حساب کتاب لگا کرچلتے ہیں۔

پی ٹی آئی میں موجودہ ترین ہم خیال بلاک بنانے کے عمل کو پہلے ہی پارٹی چیئرمین کی جانب سے بغاوت کےطورپردیکھاجارہا ہے۔جہانگیرترین اینڈ کمپنی کواس بات کا اندازہ ہے کہ وہ اب ریڈ لائن کے پاس کھڑے ہیں۔لہٰذا اب اٹھایا گیا کوئی بھی قدم انھیں اندرسے باہرکرسکتا ہے۔اوراگربالفرض ایسی کوئی ملاقات ہوتی بھی ہے تواس کا سیاسی فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔

عمران خان کو اپنا بیانیہ مزیدمضبوط کرنےکا موقع میسرآجائے گا۔حسب توقع وہ اس کوکرپشن کا گٹھ جوڑ قرار دیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کا پشاور میں تقریب کے دوران نام لئے بغیریہ کہنا کہ سارے مافیاز بھی اکٹھےہوجائیں تواین آراونہیں دوں گا۔

دراصل یہ اشارہ ہے ان لوگوں کے لئے تھا جولائن کراس کرنے پر تُلے تھے۔ترین ہم خیال گروپ کی اصل ناراضی کی تین وجوہات ہیں۔سب سے پہلے توجہانگیر ترین کو عمران خان سے یہ شکوہ ہےکہ انھیں نشانہ بنانے کی اصل وجہ یہ کیسز نہیں بلکہ ان کےگرد موجود کراچی گروپ کی لابنگ اس کا باعث ہے۔اسد عمر کی قیادت میں اس گروپ کا پرائم منسٹر آفس میں اثرورسوخ پہلے سے بڑھ چکا ہے۔

دوسرا جنوبی پنجاب کے اراکین صوبائی وقومی اسمبلی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کےرویے سےنالاں ہیں۔شاہ محمود قریشی اورجہانگیر ترین کےدرمیان سیاسی ٹسل شروع سے موجود ہے۔دونوں ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش دل میں پنہاں رکھتے تھے۔شاہ محمود قریشی،سلمان نعیم کے ذریعے ملتان کی صوبائی نشست پر شکست کو بھلا نہیں سکتے۔جہانگیر ترین کی سپریم کورٹ سےنااہلی کا سب سے زیادہ فائدہ شاہ محمودکوہوا۔ اب ان کا حکومت میں اثرورسوخ جہانگیرترین سےبڑھ گیاہے۔لیکن اپنے مخصوص رویے کی وجہ سےجنوبی پنجاب کی سیاست میں ان کااثرورسوخ کم ہوا ہے۔

اس میدان میں جہانگیر ترین کا کِلہ مضبوط ہے۔تحریک انصاف کی مرکزو پنجاب حکومت بنوانےمیں ترین طیارے کی سروس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ترین گروپ کا تیسرا شکوہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ان کی بات نہیں سنتے۔پاکستان میں وزیر اعظم کے بعد اگر کوئی تگڑا سیاسی عہدہ ہےتووہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہے۔تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کے بعد سب کو معلوم تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ہی بنیں گے۔

اس لئے سارے بڑے کھلاڑیوں کی نظر وزارت اعلیٰ پنجاب پر تھی۔اس بات کا اندازہ عمران خان کو بھی تھا۔لہٰذا پنجاب کی باگ ڈور کسی ایک کھلاڑی کے ہاتھ میں دیناباقیوں کومستقل ناراض کرنے کے مترادف تھا۔اس لئے نہایت سوچ سمجھ کر گیم الجھائی گئی۔تمام قیاس آرائیوں کے برعکس قرعہ فال سردارعثمان بزدار کے نام نکلا۔ ایسا شخص جو ایم پی اے ہاسٹل میں کمرہ تلاش کر رہا تھا وہ وزیر اعلیٰ آفس میں برجمان ہوا۔

عثمان بزدار کا مطلب عمران خان ہے۔وزیراعظم عمران خان ہی دراصل ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔پارٹی میں وزارت اعلیٰ پنجاب کے”امیدوار” پچھلے ڈھائی برسوں میں مسلسل عثمان بزدار کے "جانے” کی خبریں دیتے رہے۔اس کام کے لئے میڈیا کے ایک حصے کو قائل کیا گیا کہ عثمان بزداراس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔حالانکہ عثمان بزدار وہی کرتے ہیں جو انھیں وزیر اعظم کی جانب سے ہدایت ملتی ہیں۔ماضی قریب میں چوہدری پرویز الٰہی اور خواجہ برادران کی ملاقات کے بعدبھی قیاس آرائیوں کے پہاڑ کھڑے کئے گئےلیکن مردہ چوہا بھی برآمد نہ ہوا۔

اب ترین ہم خیال گروپ نے بھی اس بغاوت کا رخ مرکز کی بجائے پنجاب حکومت کی جانب موڑا ہوا ہے اوراس کا ہدف وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔وزیر اعظم کے دورہ ملتان کے دوران اس گروپ کےممبران کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان کی قابلیت، اہلیت اور پارٹی کے لئے قربانیوں پر سوال اٹھائے گئے۔ جس پروزیراعظم کی جانب سے کوئی رسپانس نہ ملنا بھی علیحدہ گروپ کےاعلان کی ایک وجہ بنا ہے۔مقتدر حلقوں کی جانب سے خاموشی کے بعد اس گروپ کا مزید آگے جانا گھاٹے کا سودا نظر آتا ہے۔حکومت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترین ہم خیال گروپ کو واپسی کا راستہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سےفارورڈ بلاک کےتحفظات دور ہونےکےبعد امکانی طور پرصورتحال نارمل ہوجائےگی لیکن دوریاں برقرار رہیں گی۔اب بھی کچھ لوگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔انھیں لگتا ہےشاید چوہدری نثار کے ایم پی اے کا حلف اٹھانے، شہباز شریف کے سیاسی طور پر متحرک ہونے اور ترین ہم خیال فارورڈ بلاک بننے سے پنجاب میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔

ان کے لئے عرض ہے ایسا بظاہر ممکن نہیں ہےکہ جہانگیرترین یہ ساری محنت ن لیگ کی جھولی میں ڈال دیں۔ان کے لئے اس سےبہتر یہی ہوگا کہ عثمان بزدارہی وزیراعلیٰ پنجاب رہیں۔ دوسراایک اہم سوال جو زیر گردش ہے کہ تحریک انصاف کا آمدہ بجٹ کیسے پاس ہو گا؟ جواب یہ ہے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔حکومت کو نہ صرف ترین گروپ کی حمایت حاصل ہو گی بلکہ پچھلےدو برسوں کی طرح مسلم لیگ ن اس باربھی خاموش تعاون کرے گی۔شہباز شریف مستبقل کے اقتدارکی خاطراگلے دو برس یہ قیمت ادا کرتے رہیں گے۔کیونکہ ایک پیج کی کہانی ابھی نہیں بدلی۔۔

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

’’بد زبانی‘‘ کا کلچر ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

بچوں کے وزیر اعظم ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

میڈیا اور وراثتی سیاست کا گلیمر۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

ملک عاصم ڈوگر کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author