مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سمے وِی رَنگ پَرنگے ھَن ۔۔۔ قسط 3||گلزار احمد

اب اگر سندھ کنارے کو آباد بھی کیا جا رہا ھے پھر بھی وہاں لوگ سہمے سہمے ڈرے ڈرے واک کرتے نظر آتے ہیں وہ کُھلا ڈُلا ماحول وہ بارونق شامیں وہ دھاونیاں وہ دریا کے کنارے بانسری کی آواز وہ من چلوں کے ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کہیں نظر نہیں آتے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونیورسٹی کے قیام کے سات سال بعد 15 جنوری 1981ء کو ریڈیو پاکستان ڈیرہ قائم ھوا تو وہاں مقامی ثقافت کے رنگ کھلنےاور بکھرنے لگے۔ اس سے پہلے حاجی علیم اکبر صاحب۔ یامین سید صاحب۔پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید صاحب ۔عزیزاللہ اعوان صاحب میر واعظ صاحب ڈیرہ آرٹ کونسل چلا رھے تھے جو فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور عوام میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے کے لئے پروگرام کرتے۔
حلقہ ادب ثقافت ہمارے دوست اور صحافی لطیف الرحمان صاحب بڑی عمدگی سے چلا رھے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں کے بہت سے حلقے تھے۔ دریا سندھ کا کنارہ ڈیرہ کے ثقافت کا امین رہا ھے۔ چھاونی کے اندر جانے کی چار سڑکیں کھلی تھیں اور لوگ آزادی سے دریا کے کنارے پہچتے۔
مڈوے ھوٹل ۔انڈس ھوٹل پر ہجوم ھوتا ۔طالب علم اور پروفیسر اکٹھے بیٹھ کے چاۓ کی میز پر علمی بحثیں کرتے۔ اب تو پورے شھر میں ڈھنگ کی شام گزارنے کے لئے جگہ ہی نہیں بچی جہاں چاند کی کرنوں کو دریا کی لہروں سے کھیلتا دیکھیں اور جھومتے ٹہلتے گنگناتے قہقہے مارتے واپس لوٹیں۔
دل افسردہ پڑ جاتا ھے جب شھر کی پرانی رونقیں یاد آتی ہیں کیونکہ ڈیرہ شھر کو دھشت گردی کے آسیب نے جکڑلیا اور سب کچھ تباہ ہو گیا اور شھر کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا گیا ۔
اب اگر سندھ کنارے کو آباد بھی کیا جا رہا ھے پھر بھی وہاں لوگ سہمے سہمے ڈرے ڈرے واک کرتے نظر آتے ہیں وہ کُھلا ڈُلا ماحول وہ بارونق شامیں وہ دھاونیاں وہ دریا کے کنارے بانسری کی آواز وہ من چلوں کے ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کہیں نظر نہیں آتے۔
سرائیکی شعر ھے؎
ثَمے وِی رَنگ پَرنگے ھَن ۔اُتُوں ویلے وِی چَنگے ھَن۔۔۔ڈِیہاڑے سُوھنڑیں لَنگھے ھَن ۔اَساں ہاں یار پَردیسی۔
جاری ہے

%d bloggers like this: